tag:blogger.com,1999:blog-30394404087093613612024-03-14T03:15:57.804-07:00Focus PakistanWelcome to The Focus Pakistan, focusing on News from Pakistan and Asia, plus Business, World Affairs, and Sports News!
KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.comBlogger585125tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-80019120840262644722024-02-07T02:56:00.000-08:002024-02-07T02:56:46.013-08:00قومی اداروں کی نجکاری<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgc4uMsf_qNIPTpj6kCe0z4FjM4n50nYxiYxVVHExFmAXe617wi8-GU-6v_U6F9bmbqrrHeHLACx4nFO90qUzDY-bM5NDUE66XEcnljgvhTY8Q04CQ78TTYQdyGXSpT4jxlnYIs19dx84nz7SMr6df-CNqRvODp4HJDHhHbyKEhyl29ba8BDDsCSdU-zl0l/s670/Privatization%20in%20Pakistan%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="447" data-original-width="670" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgc4uMsf_qNIPTpj6kCe0z4FjM4n50nYxiYxVVHExFmAXe617wi8-GU-6v_U6F9bmbqrrHeHLACx4nFO90qUzDY-bM5NDUE66XEcnljgvhTY8Q04CQ78TTYQdyGXSpT4jxlnYIs19dx84nz7SMr6df-CNqRvODp4HJDHhHbyKEhyl29ba8BDDsCSdU-zl0l/w400-h266/Privatization%20in%20Pakistan%203.jpg" width="400" /></a></div>ملک کی معیشت کا حال مت پوچھیے۔ بظاہر اصلاح کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ بقولِ غالبؔ :<br />کوئی امید بر نہیں آتی<br />کوئی صورت نظر نہیں آتی<br />حالت یہ ہے کہ ڈاکٹروں پر ڈاکٹر تبدیل کیے جا رہے ہیں، لیکن مریض کی حالت ہے کہ بہتر ہونے کے بجائے مزید بگڑتی جا رہی ہے۔ مختلف قومی ادارے جو کبھی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہوا کرتے تھے، ملک کی معیشت کے لیے بوجھ بن چکے ہیں۔ سب سے بڑی مثال قومی ایئر لائن پی آئی اے کی ہے جس کا سلوگن ہوا کرتا تھا Great people to fly with ملک کے ہی نہیں غیر ملکی مسافر بھی پی آئی اے سے سفر کرنے پر فخر کیا کرتے تھے۔ یہ وہ ایئر لائن تھی جس نے کئی مشہور غیر ملکی ایئر لائنوں کو جنم دیا تھا جو آج پھل پھول رہی ہیں۔ وقت کی پابندی کا عالم یہ تھا کہ پی آئی اے کی پرواز سے لوگ اپنی گھڑیاں ملایا کرتے تھے۔ دورانِ پرواز مسافروں کی جو خاطر تواضع کی جاتی تھی اب وہ قصہ پارینہ ہے۔ ایئر مارشل نور خان (مرحوم) کی یاد بُری طرح ستا رہی ہے جنھوں نے اِس پودے کی اپنے خون سے آبیاری کی جس کے نتیجے میں یہ پودا ایک تناور درخت بن گیا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آج اِس درخت کا حال یہ ہے کہ شاخیں ٹوٹ رہی ہیں اور پتے جھڑ رہے ہیں۔ یہ کیسے ہوا اور کون اِس کا ذمے دار ہے، یہ کہانی بہت رقت انگیز ہے۔ قصہ مختصر:<br />وقت کرتا ہے پرورش برسوں<br />حادثہ ایک دم نہیں ہوتا<br />نوبت یہ آن پہنچی ہے کہ مریضہ کو خون پر خون چڑھایا جارہا ہے اور اس کی حالت کسی طور سُدھر نہیں رہی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اِس وقت ملک میں 4 پرائیوٹ فضائی کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ہر کمپنی منافع میں جارہی ہے جب کہ پی آئی اے کا معاملہ اِس کے الٹ ہے۔ شنید یہ ہے کہ اِس کی نجکاری کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ صرف وقت کا انتظار ہے۔<br />عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گئی آرام گیا<br />جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا<br />منافع تو کُجا پی آئی اے کو گزشتہ سال 88 بلین روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا۔ اِس سے بھی قبل ایئر لائن کو 50 بلین روپے کا نقصان ہوا تھا۔ پی آئی اے کو سال بہ سال ہونے والے نقصانات کی کُل رقم 717 بلین روپے بنتی ہے جب کہ اِس کی موجودہ قیمت 900 روپے بلین ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjZoQFxj8Z1C8xK3Buks24tUWfk60ob41rjyyKcKoPH7ihUseEM2tLvMEdbmkuLa6Xk6mKzaEYw0PjP1eFAAC70gRJzXpYGumUaURYvg1qv23zzFYJXPWk7TjtRaL7k8m_mv1tfc9aDkwGRsn5T9s59Q5qy9qzm5GVJYiQ5iDxkzz92scBpS388cjuxI6Cm/s1024/Privatization%20in%20Pakistan%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="576" data-original-width="1024" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjZoQFxj8Z1C8xK3Buks24tUWfk60ob41rjyyKcKoPH7ihUseEM2tLvMEdbmkuLa6Xk6mKzaEYw0PjP1eFAAC70gRJzXpYGumUaURYvg1qv23zzFYJXPWk7TjtRaL7k8m_mv1tfc9aDkwGRsn5T9s59Q5qy9qzm5GVJYiQ5iDxkzz92scBpS388cjuxI6Cm/w400-h225/Privatization%20in%20Pakistan%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">900 بلین روپے کی یہ رقم کسی بڑے 15 اسپتال، کسی بڑی جدید 60 جامعات اور پورے پاکستان میں 18,000 اسکول تعمیر کرنے کے لیے کافی ہے۔ پی آئی اے کا یہ حشر کیوں اور کیسے ہوا؟ اِس کی سب سے بڑی وجہ اووَر اسٹافنگ ہے۔ موٹی سی بات ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بحری جہاز پر اُس کی گنجائش سے کئی گُنا سامان لاد دیا جائے تو اُس کا ڈوبنا یقینی ہے۔ سیاسی سفارشوں کے دباؤ تلے بے تحاشہ اور اندھا دھُند بھرتیاں کی گئیں جس نے اس ادارے کا دیوالیہ نکال دیا۔ دوسری جانب ضرورت سے زیادہ اسٹاف ہونے کی وجہ سے اِس کی کارکردگی بُری طرح متاثر ہوئی۔ اس ادارے پر چاہے جتنا پیسہ لگا دیا جائے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام ریگستان میں آبیاری کرنے کے مترادف ہو گا۔ ایک پی آئی اے کا ہی رونا کیا دیگر قومی اداروں کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پاکستان ریلوے بھی نزع کی حالت میں ہے۔ یہ قومی ادارہ بھی مسافروں کی آمد ورفت اور مال برداری کا اہم ترین اور نہایت با کفایت ذریعہ تھا لیکن کرپشن اور بدانتظامی نے اِس کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے اِس کے نقصانات کی تلافی کے لیے اِس کو 45 بلین روپے کی خطیر رقم مہیا کی تھی۔ اِس کے علاوہ 25 بلین روپے کی اضافی رقم اِس کی ترقی کی مَد میں دی تھی۔ مجموعی صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ 15 سالوں میں ملک کے ٹیکس دہندگان نے بطورِ اعانت پاکستان ریلویز کو 783 بلین روپے کی بھاری رقم فراہم کی تھی مگر نتیجہ وہی صفر کا صفر رہا۔ اِس محکمہ کی موجودہ قیمت 1000 بلین روپے ہے۔ ایک کلو گرام وزنی کارگوکی نقل و حمل پر خرچ ہونے والے ڈیزل کی قیمت ریل کے مقابلے میں ٹرک سے 3 سے 4 گُنا زیادہ ہے۔ اِس کے باوجود پاکستان ریلوے کارگو پر ٹرک کے مقابلے میں زیادہ قیمت وصول کرتی ہے۔ ریل سے سفر مسافروں کے لیے زیادہ آرام دہ اور محفوظ ذریعہ ہے لیکن پھر بھی مسافروں کی ایک بڑی تعداد ریل کے مقابلے میں بس کے لمبے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک زمانہ وہ تھا جب ریلوے کے محکمہ کی وزارت کا قلم دان محمد خان جونیجو جیسے انتہائی ذمے دار اور فرض شناس شخص کے پاس تھا۔ پاکستان ریلوے کی کارکردگی کا وہ سنہرا دور تھا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اُس وقت ٹرینوں کی آمد ورفت نہ صرف بروقت ہوا کرتی تھی بلکہ ٹرین کی بوگیوں اور اسٹیشنوں کی حالت بھی اچھی ہوا کرتی تھی اور مسافروں کو ٹکٹ باآسانی دستیاب ہوتے تھے اور ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ ریلوے کے ملازم بھی آسودہ اور خوشحال اور ایماندار ہوتے تھے اور کرپشن کا نام و نشان نہیں تھا۔ پھر یوں ہوا کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ریلوے کی انتظامیہ میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔ ہوتے ہوتے وہ وقت بھی آگیا جب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت میں اِس کی وزارت کا قلم دان خواجہ سعد رفیق کے سپرد کردیا گیا جنھوں نے انتہائی دیانت، فراست اور بساط کے مطابق اِس اونٹ کی کَلیں سیدھی کرنے کی انتھک کوششیں کیں جس کے نتیجے میں نہ صرف اِس قومی ادارے کی کارکردگی بہتر ہوئی بلکہ مسافروں کی سہولتوں میں بھی اضافہ ہوا اور بہتری ہوئی۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کی حالت جاننے کے بعد اب آئیے! پاکستان اسٹیل مِلز کی حالت پر ایک سَر سَری نظر ڈالی جائے۔ اِس عظیم اور غیر معمولی اہمیت کے حامل ادارے کے قیام کا سہرا سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کے سَر ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان انتہائی کشیدہ تعلقات کے پَس منظر میں اِس ادارے کا قیام محض ایک خواب تھا جس کی تعبیر ناممکن تھی لیکن کمال ہے بھٹو صاحب کا کہ نہ صرف انھوں نے اپنی بے مثل ذہانت کی بدولت دونوں ممالک کے تعلقات کی کشیدگی کو اپنی سحر انگیز ڈپلومیسی کے ذریعے دوستی میں تبدیل کر دیا بلکہ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام کو بھی ممکن بنا دیا۔ افسوس صد افسوس بعض دیگر اداروں کی طرح بد انتظامی اور کرپشن کی بھینٹ چڑھ کر یہ ادارہ بھی ایک عظیم اثاثہ کے بجائے ایک بوجھ بن گیا اور نوبت یہ ہے کہ اِس کے ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اِس کے ملازمین اور پینشنرز ایک عذاب میں مبتلا ہیں۔ چار و ناچار یہ عظیم ادارہ بھی نجکاری کی زد میں ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">شکیل فاروقی </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-11115407886168821842024-01-16T05:42:00.000-08:002024-01-16T05:42:38.177-08:00 کیا تحریک انصاف کو اس کے وکیلوں نے مروایا؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgJqy3qTnIhjQdcDuf0q1kQH3QtipwFHh_yngD_BD3sV8EHeoEFxd3znabfzfh4CcyaA3AUDyFGK3VWucw1eSZJLWSoao8QUr_3W-sv0nuKbuw0umF5q5wdnOrhm3hZliVdeQ-tmS8iDbzloxQ2Erotj6aUsmI76fXF3R56Q7iFcXHVE7v9tpRmkERlPobX/s2000/Pakistan%20Tehreek-e-Insaf%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1200" data-original-width="2000" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgJqy3qTnIhjQdcDuf0q1kQH3QtipwFHh_yngD_BD3sV8EHeoEFxd3znabfzfh4CcyaA3AUDyFGK3VWucw1eSZJLWSoao8QUr_3W-sv0nuKbuw0umF5q5wdnOrhm3hZliVdeQ-tmS8iDbzloxQ2Erotj6aUsmI76fXF3R56Q7iFcXHVE7v9tpRmkERlPobX/w400-h240/Pakistan%20Tehreek-e-Insaf%203.jpg" width="400" /></a></div>تحریک انصاف کے کارکنان اور مداح اگر عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو سخت سست کہہ کر اپنا کتھارسس فرما چکے ہوں تو انہیں اس سوال پر بھی غور فرما لینا چاہیے کہ ان کی جماعت کو اس حال تک پہنچانے میں خود ان کے وکیلوں نے کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان کے وکیلوں نے بھی وہی غلطی کی ہو جو بھٹو مرحوم کے وکیلوں نے کی تھی ؟ بھٹو صاحب کے وکیلوں سے یہ بنیادی غلطی ہوئی کہ وہ اس مقدمے کو اس سنجیدگی سے لے ہی نہ سکے جس سے لینا چاہیے تھا۔ بھٹو کیس کی فائل پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ مقدمہ اس سے بہت بہتر انداز سے لڑا جا سکتا تھا۔ ان کے وکیل اسی غلط فہمی میں رہے کہ بھٹو کی مقبولیت کے سیلاب کے آ گے ان قانونی موشگافیوں کی کیا حیثیت ہے، وہ ان سب کو بہا لے جائے گی۔ ان کے اندازے کی یہ غلطی ان کے موکل کے لیے بہت مہلک ثابت ہوئی۔ یہی غلطی عمران خان کے وکیلوں سے ہوئی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن اور الیکشن ایکٹ وغیرہ کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔ وہ فارن فنڈنگ کیس ہو یا انٹرا پارٹی الیکشن کا، ان کے خیال میں اس سب کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور ان کے لاشعور میں کہیں یہ تھا کہ عمران خان کی مقبولیت اس سب کو بہا کر لے جائے گی۔ اندازے کی یہ غلطی تحریک انصاف کو بہت مہنگی پڑی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سیاست مقبولیت اور تاثر کی بنیاد پر چلتی لیکن قانون تکنیکی بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے۔ یہ کام وکیل کا ہے کہ وہ اپنے موکل کی مقدمے کی تکنیکی بنیادوں کا تحفظ کرے۔ تحریک انصاف کے وکیل یہ کام نہیں کر سکے۔ کوئی جلسے کرنے لگ گیا، کسی نے سوشل میڈیا اکائونٹ بنا کر ویڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کر دیں۔ عمران خان کے ساتھ وکیلوں نے وہی کیا جو ان کے یوٹیوبرز نے کیا۔ شہرت کے حصول اور سوشل میڈیا کی رونقوں میں اصل کام کو توجہ نہ دی جا سکی۔ جماعت اسلامی کے سوا شاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جہاں انٹرا پارٹی الیکشن قانون کی روح کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہاں سیاسی جماعت ہو یا مذہبی، ہر جانب موروثیت ہے۔ ایسے میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات بھی قانون کے مطابق نہیں ہو سکے تو ا س میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ البتہ ایک فرق نمایاں ہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کی قانونی ٹیم سب کچھ کے باوجود اپنا فائل ورک مکمل رکھتی ہے۔ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انتخابی قوانین ناقص اور نامعتبر ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjtArkQzBcq5SsMIkCqeFempmZtLSaPGgb4XOP3p7ItRIL62t7zKgZTdGqcVXNDQmBjuqJsveOvD7G8YBEz_s_2KrgD_Z4eCPdDK921foacdEqORFtDZ_Qv13r5JFlZpBvtmCS-hopx8PZcmDxYsRvE1oouqxyx6V3Y0nIxEVaxuqYtwrvcv5U58KzueZg8/s670/Pakistan%20Tehreek-e-Insaf%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="395" data-original-width="670" height="236" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjtArkQzBcq5SsMIkCqeFempmZtLSaPGgb4XOP3p7ItRIL62t7zKgZTdGqcVXNDQmBjuqJsveOvD7G8YBEz_s_2KrgD_Z4eCPdDK921foacdEqORFtDZ_Qv13r5JFlZpBvtmCS-hopx8PZcmDxYsRvE1oouqxyx6V3Y0nIxEVaxuqYtwrvcv5U58KzueZg8/w400-h236/Pakistan%20Tehreek-e-Insaf%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہاں انتخابی اخراجات کی حد سے لے کر انٹرا پارٹی الیکشن تک سب کی حیثیت اقوال زریں کی ہے۔ سیاسی جماعت ان پر عمل نہ بھی کر سکے تو ان کی قانونی ٹیم اپنا فائل ورک مکمل کر لیتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم اس سلسلے میں فائل ورک مکمل نہیں کر سکی۔ اس کے پاس کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ یو ٹیوبرز کا معاملہ تو قابل فہم ہے لیکن قانونی ٹیم کا کام اپنی پارٹی کا قانونی تحفظ ہوتا ہے، ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا پر داد شجاعت دینا نہیں ہوتا۔ یہ عذر کمزور ہے کہ الیکشن کمیشن اور عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر فیصلہ دیا۔ قانون نام ہی تکنیکی بنیادوں کا ہے۔ اگر حلقہ انتخاب سے محروم وکلا اپنی وکالت کی خدمات کی وجہ سے کسی پارٹی میں معتبر ہونا چاہتے ہوں یا ٹکٹ لے کر اقتدار کے ایوانوں میں گھسنا چاہتے ہوں تو پھر کم از کم دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ اس پارٹی کو ان تکنیکی قانونی نکات کے بارے میں آگاہ اور تیار رکھا جائے جو اس کے لے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہوں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">انٹرا پارٹی میں الیکشن میں کچھ بے ضابطگیاں رہ گئی تھیں تو یہ قانونی ٹیم کی ذمہ داری تھی کہ ان کا لیگل کور بروقت تیار کرتی۔ حیران کن طور پر تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے یہ نکتہ اٹھایا ہی نہیں کہ ہمارا الیکشن ٹھیک ہوا ہے اور الیکشن کمیشن بلاوجہ اسے غلط قرار دے رہا ہے۔ ان کا بنیادی نکتہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی یہ نہیں تھا۔ انہوں نے یہ کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہمارا انٹرا پارٹی الیکشن دیکھنے اور جانچنے کا اختیار نہیں۔ یہ دلیل سپریم کورٹ کیسے مان لیتی؟ کبھی کہا گیا الیکشن کمیشن تو فیصلہ دینے والا ادارہ ہے وہ اپیل کیسے کر سکتا ہے ؟ کیا اب ہائی کورٹ بھی فیصلہ دے کر اپیلیں کرے گی؟ یہ دلیل شاید اس لیے دی گئی کہ جو لوگ لائیو دیکھ رہے ہیں وہ مرحبا مرحبا کہنے لگیں اور یوٹیوبرز اس پر سماں باندھ دیں۔ لیکن قانون کی دنیا سے منسلک لوگ خوب جانتے ہیں کہ یہ دلیل خود تحریک انصاف کے ساتھ مذاق سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ الیکشن کمیشن بنیادی طور پر انتظامی ادارہ ہے۔ اسے کچھ اختیارات ضرور ہیں کہ وہ بعض معاملات میں فیصلہ کر سکتا ہے لیکن اسے ہائی کورٹ سے نہیں ملایا جا سکتا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">الیکشن کمیشن اس وقت سے انہیں الیکشن کا کہہ رہا ہے جب یہ اقتدار میں تھے لیکن یہ اسے نظر انداز کرتے رہے۔ کیوں؟ کیا قانونی پیچیدگی کے سامنے قانونی ٹیم کی یہ پالیسی تھی؟ کیا تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کو معلوم نہیں تھا کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے پہلے پارٹی کے آئین میں تبدیلی کا قانونی طریقہ کار کیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں ایکٹورل کالج بدلا جا رہا تھا جب پارٹی عہدیداران کی قانونی مدت ختم ہو چکی تھی تو کیا اس عمل کی کوئی قانونی توجیح سوچی گئی تھی؟ سوچی گئی تھی تو جب الیکشن کمیشن نے یہی اعتراض اٹھا دیا تو اس کا جواب کیوں نہ دیا گیا؟ پارٹی کا آئین بدلا جائے تو الیکشن قوانین کے تحت پارٹی عہدیداران کی پاس کردہ ریزولیوشن ان کے نام اور دستخطوں سے الیکشن کمیشن کو جمع کرانی ہوتی ہے۔ پارٹی کی قانونی ٹیم نے یہ پہلو کیوں نظر انداز ہونے دیا؟ جب الیکشن کمیشن نے اعتراض اٹھایا تو کیا یہ مناسب نہ تھا کہ الیکشن کمیشن کے اختیار کو چیلنج کرنے کی بجائے فائل ورک مکمل کرنے پر توجہ دی جاتی؟ کیا یہ درست نہیں کہ الیکشن کمیشن بار بار یہ دستاویزات مانگتا رہا لیکن اسے پیش نہیں کی جا سکیں؟</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اکبر ایس بابر سالوں سے تحریک انصاف کے معاملات پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ان کے پارٹی سے اخراج کی آج تک کوئی دستاویز عدالت میں نہیں دی جا سکی۔ بس اتنا کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ پارٹی کے رکن نہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ساتھ ہی عدالت میں کہا گیا کہ وہ پانچ بجے تک آ جاتے تو ہم انہیں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی دے دیتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ پارٹی کے رکن ہی نہیں تو پانچ بجے تک پہنچ جانے پر پارٹی انہیں کاغذات نامزدگی کیسے دے دیتی اور کیوں دے دیتی۔ حال یہ ہے کہ تحریک انصاف نظریاتی کو انہوں نے پلان بی کے طور پر رکھا ہوا تھا حالانکہ تحریک انصاف نظریاتی ان کی شدید مخالف ہے اور پچھلے الیکشن میں اسی مخالفت پر وہ میدان میں اتری تھی؟</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ<br /> خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آصف محمود </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-53809463562756456722024-01-01T04:05:00.000-08:002024-01-01T04:05:54.694-08:00ہے کسی کو خودکشیوں کا احساس<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgQKLQwtKwkC9yyZTsycnpXo67BgW6XVVjbQFPi-kqNme526j4MW5dB6G_xUl5nS0j6uqUpVufnZS6XbF0i_q6N91A6UY3_E5Ksx5e7NXlJtQfo2JhDU8wvd3LbCDpxm2gxEUUhA6rw2XaemLrx4hXk2M31pZ108RYDVwS-UFIEMziOJsG5WB2ub6C0K8k0/s4979/Suicides%20in%20Pakistan%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2925" data-original-width="4979" height="235" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgQKLQwtKwkC9yyZTsycnpXo67BgW6XVVjbQFPi-kqNme526j4MW5dB6G_xUl5nS0j6uqUpVufnZS6XbF0i_q6N91A6UY3_E5Ksx5e7NXlJtQfo2JhDU8wvd3LbCDpxm2gxEUUhA6rw2XaemLrx4hXk2M31pZ108RYDVwS-UFIEMziOJsG5WB2ub6C0K8k0/w400-h235/Suicides%20in%20Pakistan%203.jpg" width="400" /></a></div>ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ دس سالوں میں ملک میں خودکشیوں کی شرح 20 فی صد بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سیاسی و معاشی حالات، جنگیں، غربت، ہوش ربا مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور ذہنی امراض ہیں۔ موجودہ حالات کے باعث بچوں میں ذہنی امراض کا بڑھنا تشویش ناک ہو چکا ہے۔ خبر کے مطابق ملک میں موجودہ صورت حال میں میرٹ کا قتل، حکومت اور سرکاری اداروں پر لوگوں کا عدم اعتماد، سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال اور سوشل سسٹم کا کمزور ہونا بھی شامل ہے۔ ہر طرف سے مایوس افراد اپنے حالات کسی سے شیئر نہیں کرتے، سماجی تنہائی بڑھ گئی ہے، والدین اپنے بچوں کو موبائل اور ٹی وی کارٹونوں کا عادی بنا کر تنہائی کا شکار بنا رہے ہیں۔ لوگوں میں چڑچڑاہٹ، غصہ اور ڈپریشن سے بھی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک کی سیاسی پارٹیوں، اقتدار کے خواہش مند سیاستدانوں اور آئین پر عمل اور نوے روز میں ہر حال میں الیکشن کرانے کے حامی اینکر اور صحافیوں کا بھی سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے مگر خود کشیوں کی شرح میں بیس فی صد اضافے کی کسی کو فکر نہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جلد الیکشن کے انعقاد کے دلی مخالف سیاستدانوں میں کسی کو معیشت کی فکر کھائے جا رہی ہے کسی کو ریاست ڈوبنے کی اور کسی کو فکر ہے کہ جنوری کی سخت سردی اور برف باری میں لوگ ووٹ دینے کیسے نکلیں گے۔ ملک میں مہنگائی کی شرح غیر سرکاری طور پر تیس فی صد سے بھی زائد ہو چکی ہے مگر حکومت کے نزدیک مہنگائی کم ہوئی ہے۔ حکومت ڈالر اور سونے کی قیمتوں میں آنے والی کمی کو مہنگائی میں کمی سمجھ رہی ہے اور آئے دن بجلی و گیس کے نرخ بڑھانے میں مصروف ہے اور حکمرانوں کے لیے مہنگائی پر تشویش کا اظہار کر لینا ہی کافی ہے۔ عوام حیران ہیں کہ اتحادی حکومت کے دور میں ڈالر پر ڈار کا کنٹرول نہیں ہوا تھا مگر نگرانوں کے دور میں وردی والوں کی محنت سے ڈالر کی قیمت تو کم ہوئی مگر مہنگائی میں کمی کیوں واقع نہیں ہو رہی۔ پی ٹی آئی حکومت میں جن لوگوں کو مہنگائی بہت زیادہ لگتی تھی جس پر وہ لانگ مارچ اور احتجاج کرتے تھے انھیں ملک میں مہنگائی و بجلی کی قیمتوں کے باعث خودکشیاں کیوں نظر نہیں آ رہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhIF_p8fCG-51F8ZNtieiLhbIdMQx0SjECC37EFhM_yTFzp-H2m2kqRN8gfoiKg4fPTmHnFvs4PlN9FHyCzE1IrVz18wq4God0u-mbYmEKqmpE1b8Cs-eqOlitZj9PLy1b8i6EqDBGKl1HwBHMfGcaPlhleHzai9NmbHJUCjXF-WnzJH_u4LfXZDDgALrMA/s3103/Suicides%20in%20Pakistan%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2065" data-original-width="3103" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhIF_p8fCG-51F8ZNtieiLhbIdMQx0SjECC37EFhM_yTFzp-H2m2kqRN8gfoiKg4fPTmHnFvs4PlN9FHyCzE1IrVz18wq4God0u-mbYmEKqmpE1b8Cs-eqOlitZj9PLy1b8i6EqDBGKl1HwBHMfGcaPlhleHzai9NmbHJUCjXF-WnzJH_u4LfXZDDgALrMA/w400-h266/Suicides%20in%20Pakistan%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حال ہی میں فیصل آباد میں بجلی کے بھاری بل میں اپنا حصہ نہ دینے پر بھائی نے بھائی کو مار دیا۔ بجلی کا بھاری بل دیکھ کر متعدد افراد ہارٹ اٹیک کا شکار ہوئے اور بعض نے خودکشی کی مگر یہ سب نگران حکومت کے لیے تشویش ناک نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے تو عوام کو ریلیف دینے کی بات کی ہی نہیں تھی تو خبریں بولتی ہیں کہ جب یہ کہا گیا تھا کہ حکومت نے بجلی قیمتوں میں کمی اور ریلیف دینے کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کیا ہے مگر حکومت کو کمی کی اجازت نہیں ملی مگر حکومت اتنی بجلی مہنگی کر کے بھی فکرمند نہیں بلکہ کمی کے بجائے اضافے ہی کی منظوری دے دیتی ہے اور یہ اضافہ ہر ماہ ہو رہا ہے۔ میڈیا کے مطابق رواں سال 6 لاکھ سے زائد افراد ملک چھوڑ کر جا چکے اور اکثریت مایوس ہے کہ باہر کیسے جائیں، پی پی دور کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے تو اپنے دور میں کہا تھا کہ باہر جائیں روکا کس نے ہے۔ کسی سیاسی لیڈر کو بھی خودکشیوں کی نہیں اپنے سیاسی مفادات کی فکر ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پیپلز پارٹی والوں کو بھی خود کشیوں پر تشویش ہے نہ مہنگائی کی فکر انھیں بس بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کی فکر ہے۔ پی پی موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے لیے حصول اقتدار کے لیے جلد الیکشن اس لیے چاہتی ہے کہ عوام موجودہ صورت حال کا ذمے دار پی ٹی آئی کو نہیں سابقہ اتحادی حکومت کو سمجھتے ہیں اس لیے انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔ نگراں حکومت کی طرف سے ڈالر کم ہونے کے باوجود مہنگائی مزید بڑھنے کے کسی صوبے میں اقدامات نہیں کیے جا رہے اور مہنگائی کا ذکر کرکے حکمران عوام پر احسان کر دیتے ہیں کہ انھیں بھی مہنگائی کا احساس ہے مگر کم کرنے کے بجائے مہنگائی بڑھانے میں وہ ضرور مصروف ہیں۔ موجودہ نگرانوں کو آیندہ الیکشن نہیں لڑنا اس لیے وہ مہنگائی کرتے جا رہے ہیں مگر ان کے اقدامات پر عوام تو کچھ نہیں کر سکتے مگر جو خودکشیاں بڑھ رہی ہیں۔ ان کا حساب ملک کی معاشی تباہی کے ذمے دار سابقہ اور موجودہ نگران ہیں جنھیں اس کا جواب عوام کو نہیں تو خدا کو ضرور دینا ہو گا کیونکہ اس کے ذمے دار حضرت عمر فاروق کے مطابق وقت کے حکمران ہی ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ٹھنڈے دفاتر، بہترین لباس اور پروٹوکول میں سفر کرنے والے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں جا کر وہاں کی غربت اور عوام کی بدحالی نہیں دیکھ سکتے تو وہ کراچی، لاہور کی کسی بھی بڑی مسجد میں جا کر غریبوں کی حالت دیکھ لیں جہاں ہر نماز کے بعد حاجت مند اور غریب اپنے چھوٹے بچوں کے ہمراہ اپنی ضرورتیں بیان کرتے نظر آئیں گے، کوئی راشن کا طلب گار ہے تو کوئی دواؤں کے پرچے ہاتھ میں لیے کھڑے نظر آئیں گے۔ افسوس ناک حالت تو یہ ہے کہ ان حاجت مندوں میں خواتین کے علاوہ بڑی عمر کے بزرگ بھی شامل ہوتے ہیں جو شرم کے باعث مانگ نہیں سکتے اور نمازی ان کے خالی ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ ضرور دے جاتے ہیں۔ حالیہ خبروں کے مطابق اب مرد ہی نہیں عورتیں بھی غربت سے تنگ آ کر اپنے بچوں سمیت خودکشیوں پر مجبور ہو گئی ہیں۔ غربت، بے روزگاری اور قرضوں سے تنگ زندگی سے مایوس ان لوگوں کو خودکشیوں کے سوا کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا اور وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے چھوڑے ہوئے بچوں کا کیا ہو گا انھیں کون سنبھالے گا، انھیں راشن کیا بے حس حکمران دیں گے؟ بعض ادارے لوگوں کو جو کھانے کھلا رہے ہیں انھیں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے تدارک پر بھی توجہ دینی ہو گی ورنہ خودکشیاں بڑھتی ہی رہیں گی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">محمد سعید آرائیں </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-14307903390386859062023-12-25T01:22:00.000-08:002023-12-26T05:21:21.709-08:00’تسلیم کر لینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے‘<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhYqYTouxkFQYutLpQvFdq_idNG-19ButEZ0l_IZbhJsoVpvArv8nCnc9IWv9FsnxevjirN8bpFtl4wm1qAejMxZFccYGi9gWL9ZiZs1F1xu21bLt6SEqpHX1gv4-Y9-UO5kFP7317RnWXtsmJYXVYxwW5a85QL-Kfcs3HOc2JIRcIQxCOoqUZBw9hkgUSD/s5760/Palestine%20and%20Israel%20conflict%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3240" data-original-width="5760" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhYqYTouxkFQYutLpQvFdq_idNG-19ButEZ0l_IZbhJsoVpvArv8nCnc9IWv9FsnxevjirN8bpFtl4wm1qAejMxZFccYGi9gWL9ZiZs1F1xu21bLt6SEqpHX1gv4-Y9-UO5kFP7317RnWXtsmJYXVYxwW5a85QL-Kfcs3HOc2JIRcIQxCOoqUZBw9hkgUSD/w400-h225/Palestine%20and%20Israel%20conflict%204.jpg" width="400" /></a></div>صرف 24 لاکھ لوگ یعنی شنگھائی کی آبادی کا بھی 5 فیصد اور ایک سپر پاور نے انہیں دھمکانے کے لیے دو طیارہ بردار بحری جہاز بھیج دیے تاکہ جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے بن یامین نیتن یاہو کو اپنی غیر مشروط وفاداری کا یقین دلایا جا سکے۔ سلام ہے غزہ کے لوگوں کو۔ کیا اسرائیلی حملے کی مزاحمت کرنے والے ان لوگوں سے زیادہ بھی کوئی بہادر ہوسکتا ہے؟ حیرت انگیز بات تو امریکی، برطانوی اور فرانسیسی لیڈروں کا ایک صف میں کھڑے ہونا اور نیتن یاہو کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ ہیکلِ ثالث کا مستقبل تھرڈ رائیخ سے مختلف ہو گا۔ یہ ہیکل ثالث بھی ارضِ اسرائیل کے لیے مزید زمین چاہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے رائیخ کو لیبینسروم درکار تھا۔ نازی تو روس میں زمین کے متلاشی تھے جبکہ صہیونی، جیسا کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیریمی کوربن نے درست طور پر اشارہ کیا ہے، فلسطینی عوام کی قیمت پر ایسا چاہتے ہیں۔ مزید زمین کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والی اسرائیلی لالچ کو پورا کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے جنگ بندی کی بات نہ کی جائے کیونکہ یہ نیتن یاہو کی خواہش نہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ہمیں اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسرائیل سلامتی کونسل کا ’مستقل رکن‘ ہے اور اسے ویٹو بھی حاصل ہے۔ امریکی مندوب تو محض وائٹ ہاؤس کے ذریعے اسرائیل سے آنے والے احکامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اسرائیل کے حکم سے انکار کے کیا نتائج ہوں گے۔ نومبر کے آخر میں، اپنے یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل نے حماس کے ساتھ ایک مختصر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ یرغمالیوں کے تبادلے کے بعد، نیتن یاہو نے غزہ کے شہری اہداف پر دوبارہ بمباری شروع کر دی، اور سلامتی کونسل جنگ بندی کی قرارداد منظور کرنے میں ناکام رہی۔ عام طور پر، جب سلامتی کونسل کوئی مشکل جغرافیائی سیاسی مسئلہ اٹھاتی ہے اور مندوبین کسی حل پر متفق ہونے میں ناکام رہتے ہیں، تو سب سے پہلے وہ یہ کرتے ہیں کہ خونریزی کے خاتمے کے لیے ایک بے ضرر قرارداد منظور کرتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں، اس طرح کی تحریک اسرائیلی غصے کو جنم دے گی، کیونکہ یہ غزہ کے لوگوں کی جاری نسل کشی کو روک دے گی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEio1gv5DcQ0lLepWBXUDXzs5Rcwwe-TE8nPPKEtcKgX2-yO5EvVr5FUb4BEOD034kdFpslIXPfFJfi_VEvBgSxp2lRflsCxkaSDrBaws6TLd6yViuH19K0Dsm20ttk779sr181YOqsqAPh4OkYxPxgzZNYfHCrO8Zyj7VEKrHYptDRFWSqP-sVR3oE0tIVq/s5472/Palestine%20and%20Israel%20conflict%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3648" data-original-width="5472" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEio1gv5DcQ0lLepWBXUDXzs5Rcwwe-TE8nPPKEtcKgX2-yO5EvVr5FUb4BEOD034kdFpslIXPfFJfi_VEvBgSxp2lRflsCxkaSDrBaws6TLd6yViuH19K0Dsm20ttk779sr181YOqsqAPh4OkYxPxgzZNYfHCrO8Zyj7VEKrHYptDRFWSqP-sVR3oE0tIVq/w400-h266/Palestine%20and%20Israel%20conflict%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اسرائیل کے وفادار اتحادیوں کے طور پر، کونسل کے مغربی اراکین نے جنگ بندی کی قرارداد کو روک کر ایک ایسی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے جیسے ڈاکٹر بے ہوش کیے بغیر کسی مریض کا آپریشن کر دے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہمیں بیلسن اور ٹریبلنکا میں رائیخس فیوہرر ہملر کی ایس ایس کے فوجیوں کی یاد دلاتی ہے۔ صہیونیوں کو صرف لوگوں قتل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ زخمی اور حاملہ خواتین کو درد سے کراہتے ہوئے اور اس طبی امداد کے انتظار میں دیکھ کر افسوسناک خوشی سے لطف اندوز ہونا چاہتے تھے جو ایسا لگتا تھا کہ کبھی نہیں پہنچے گی۔ توقع کے عین مطابق واشنگٹن نے رفح میں اسرائیلی ہدایات کی تعمیل کی۔ اسرائیل کے حکم پر اور مصری حکومت کے تعاون سے خوراک اور طبی سامان لے جانے والے طیارے العریش ہوائی اڈے پر اترے اور سامان لے جانے والے ٹرک رفح جانے کے بجائے 206 کلومیٹر طویل مصری اسرائیل سرحد پر کسی رابطہ مقام کی طرف روانہ ہوئے۔ معائنے کے بعد وہ رفح کراسنگ پر گئے جہاں اسرائیلی حکام نے زخمیوں اور امداد کے منتظر لوگوں کو امداد کی جلد فراہمی روکنے کے لیے اس عمل میں مزید تاخیر کی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سچ تو یہ ہے کہ دنیا میں صرف ایک یہودی ریاست ہے لیکن دو صہیونی حکومتیں ہیں، ایک مقبوضہ بیت المقدس میں اور دوسری واشنگٹن میں۔ مؤخر الذکر یروشلم کی حکومت کے تابع ہے، اس کا کام بنیادی طور پر اسرائیل کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ الاہلی ہسپتال پر بمباری کے جرم سے لیکود پارٹی کی حکومت کو بری الذمہ کرنے کے صدر جو بائیڈن کے فیصلے پر غور کریں۔ بائیڈن کی اپنی کوئی رائے نہیں تھی، وہ اسرائیل میں تھے اور ظاہر ہے کہ انہوں نے امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں سے مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے بجائے انہوں نے صرف وہی بات دہرائی جو نیتن یاہو نے ان سے کہی تھی۔ بعد میں نیویارک ٹائمز اور الجزیرہ کی تحقیقات سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ ایک اسرائیلی میزائل تھا جس نے ہسپتال کو قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ کیا امریکی سیاست پر صہیونی اثرات مبالغہ آمیز ہیں؟ دو امریکی پروفیسر، جان جے میرشیمر اور اسٹیفن ایم والٹ کی کتاب ’دی اسرائیل لابی اینڈ یو ایس فارن پالیسی‘ میں اس کا ایک علمی جواب ملتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حیرت کی بات یہ ہے کہ بائیڈن کے رویے میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔ ایک فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ لیکود پارٹی کی حکومت ’اسرائیل کی تاریخ کی سب سے قدامت پسند حکومت‘ ہے اور یہ کہ نیتن یاہو کو اپنی پالیسیاں بدلنی ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اسرائیل فلسطینی ریاست کا انکار نہیں کرسکتا‘۔ تاہم اسرائیلی اثر و رسوخ کے بارے میں سچائی ایک ایسے شخص نے بیان کی جو ہر لحاظ سے صہیونی نظریے کی نمائندگی کرتا ہے اور اسے صبرا شاتیلہ میں قتل عام کی وجہ سے بیروت کا قصائی کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 2001ء میں کابینہ کے اجلاس کے دوران، اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز کی وزیر اعظم ایریل شیرون کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ ایریل شیرون نے غصے میں آتے ہوئے کہا کہ ’جب بھی ہم کچھ کرتے ہیں تو آپ مجھے کہتے ہیں کہ امریکی ایسا کریں گے اور ویسا کریں گے۔ ’میں آپ کو ایک بات واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں، اسرائیل پر امریکی دباؤ کی فکر نہ کریں، ہم، یہودی لوگ، امریکا کو کنٹرول کرتے ہیں اور امریکی اسے جانتے ہیں‘۔ یہ خبر ایک اسرائیلی ریڈیو اسٹیشن کول اسرائیل نے نشر کی تھی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">محمد علی صدیقی <br />یہ مضمون 16 دسمبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ڈان نیوز</h2><div><br /></div><div><br /></div><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-21898950502639710422023-12-06T02:22:00.000-08:002023-12-06T02:22:31.070-08:00آئیں اسرائیل سے بدلہ لیں<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgKH6gCvJSgiGg-grOWpsG_NcGq6o05ZDulDJKZgMkyzPA4qDbSKPpuX2_P55rvhx2PvgwFALjRH2rmHJhtSypYa200Yg3b0ehwNr4lAfJgLfgR3je8lZ0rNzo6sZt1m8nyh-zIwO43mYsyj1XXQsIuztpyHEckf1UtKo5yhj-zfdFjXgl_N-4uhB8LZ-4l/s5472/Boycott%20Israel%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3648" data-original-width="5472" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgKH6gCvJSgiGg-grOWpsG_NcGq6o05ZDulDJKZgMkyzPA4qDbSKPpuX2_P55rvhx2PvgwFALjRH2rmHJhtSypYa200Yg3b0ehwNr4lAfJgLfgR3je8lZ0rNzo6sZt1m8nyh-zIwO43mYsyj1XXQsIuztpyHEckf1UtKo5yhj-zfdFjXgl_N-4uhB8LZ-4l/w400-h266/Boycott%20Israel%203.jpg" width="400" /></a></div>اسلامی ممالک کی حکومتوں اور حکمرانوں نے دہشت گرد اور ظالم سرائیل کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑا مایوس کیا۔ تاہم اس کے باوجود ہم مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم اور اسرائیل کی طرف سے اُن کی نسل کشی کا بدلہ لے سکتے ہیں بلکہ ان شاء اللہ ضرور لیں گے۔ بے بس محسوس کرنے کی بجائے سب یہودی اور اسرائیلی مصنوعات اور اُن کی فرنچائیزز کا بائیکاٹ کریں۔ جس جس شے پر اسرائیل کا نام لکھا ہے، کھانے پینے اور استعمال کی جن جن اشیاء کا تعلق اس ظالم صہیونی ریاست اور یہودی کمپنیوں سے ہے، اُن کو خریدنا بند کر دیں۔ یہ بائیکاٹ دنیا بھر میں شروع ہو چکا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بائیکاٹ کو مستقل کیا جائے۔ یہ بائیکاٹ چند دنوں، ہفتوں یا مہینوں کا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت اچھا ہوتا کہ اسلامی دنیا کے حکمران کم از کم اپنے اپنے ممالک میں اس بائیکاٹ کا ریاستی سطح پر اعلان کرتے لیکن اتنا بھی مسلم امہ کے حکمران نہ کر سکے۔ بہرحال مسلمان (بلکہ بڑی تعداد میں غیر مسلم بھی) دنیا بھر میں اس بائیکاٹ میں شامل ہو رہے ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh6vNuchdTBu9J4on6vOqchfAmwCyGRWpD9hwXTKovUZ75HrNm-YWoUmYR8xL_Wl620fqF8RLs7JMI4NIEA90QrAS3J53zDG8Kyzql1UEce-WHmWmzlUcz4AQMJzyGfkVuDUwN8KqEb2SjYOoPEu_p7mu_45RLuO2fgW7NeMCo09nPud9NcY3hEiZ16vl1B/s6720/Boycott%20Israel%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4480" data-original-width="6720" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh6vNuchdTBu9J4on6vOqchfAmwCyGRWpD9hwXTKovUZ75HrNm-YWoUmYR8xL_Wl620fqF8RLs7JMI4NIEA90QrAS3J53zDG8Kyzql1UEce-WHmWmzlUcz4AQMJzyGfkVuDUwN8KqEb2SjYOoPEu_p7mu_45RLuO2fgW7NeMCo09nPud9NcY3hEiZ16vl1B/w400-h266/Boycott%20Israel%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی سوشل میڈیا پر بائیکاٹ کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے۔ اسرائیلی مصنوعات، اشیاء، مشروبات اور فرنچائیزز سے خریداری میں کافی کمی آ چکی ہے۔ ان اشیاء کو بیچنے کیلئے متعلقہ کمپنیاں رعایتی آفرز دے رہی ہیں، قیمتیں گرائی جا رہی ہیں لیکن بائیکاٹ کی کمپین جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقہ اورتاجر تنظیمیں بھی اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس بائیکاٹ کے متعلق یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ ایسے تو ان پاکستانیوں کا، جو اسرائیلی مصنوعات فروخت کر رہے ہیں یا اُنہوں نے اسرائیلی فرنچائیزز کو یہاں خریدا ہوا ہے، کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ اس متعلق محترم مفتی تقی عثمانی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بہت اہم بات کی۔ تقی صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے یہودی اور امریکی مصنوعات کی خریدوفروخت کیلئے ان سے فرنچائیزز خرید رکھی ہیں جس کی وجہ سے آمدنی کا پانچ فیصد ان کمپنی مالکان کو جاتا ہے جو کہ یہودی و امریکی ہیں یا پھر کسی اور طریقہ سے اسرائیل کےحامی ہیں تو اگر کاروبار بند ہوتا ہے تو مسلمانوں کا کاروبار بھی بند ہوتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مفتی تقی صاحب کا کہنا تھا کہ یہ فتوے کا سوال نہیں بلکہ اس مسئلہ کا تعلق غیرت ایمانی سے ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ کیا ایک مسلمان کی غیرت یہ برداشت کرتی ہے کہ اس کی آمدنی کا ایک فیصد حصہ بھی مسلم امہ کے دشمنوں کو جائے اور خاص طور پر اس وقت جب امت مسلمہ حالت جنگ میں ہو اور ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا جا رہا ہو۔ مفتی صاحب نے کہا کہ یہ بات مسلمان کی ایمانی غیرت کے خلاف ہےکہ اس کی آمدنی سے کسی بھی طرح امت مسلمہ کے دشمنوں کو فائدہ پہنچے۔ اُنہوں نے ایک مثال سے اس مسئلہ کو مزید واضح کیا کہ کیا آپ ایسے آدمی کو اپنی آمدنی کا ایک فیصد بھی دینا گوارا کریں گے جو آپ کے والد کو قتل کرنے کی سازش کر رہا ہو۔ مفتی صاحب نے زور دیا کہ غیرت ایمانی کا تقاضہ ہے کہ ان مصنوعات اور فرنچائیزز کا مکمل بائیکاٹ کر کے اپنا کاروبار شروع کیا جائے۔ اسرائیلی و یہودی مصنوعات اور فرنچائیزز کے منافع سے خریدا گیا اسلحہ مظلوم فلسطینیوں کو شہید کرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے، چھوٹے چھوے بچوں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے، کو بھی بے دردی سے مارا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے لوگوں کا دل دکھا ہوا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک عام مسلمان اسرائیل سے لڑ نہیں سکتا لیکن اُس کا کاروبار اور اُس کی معیشت کو بائیکاٹ کے ذریعے زبردست ٹھیس پہنچا کر بدلہ ضرور لے سکتا ہے۔ بائیکاٹ کا یہ سارا عمل پر امن ہونا چاہیے۔ میری تمام پاکستانیوں اور یہ کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اسرائیل سے بدلہ لینے میں بائیکاٹ کی اس مہم کو آگے بڑھائیں، اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں لیکن ہر حال میں پرامن رہیں اور کسی طور پر بھی پرتشدد نہ ہوں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> انصار عباسی</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ جنگ</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-14403649992977957682023-11-29T03:22:00.000-08:002023-11-29T03:22:35.265-08:00الجزیرہ کا کامیاب تجربہ<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhJaTWuNTz7G7j7JkPPr-4csSg1zbLt_y46Fx636bJjS9xGH6U_FgLKZxqzDJYSs9wGSa5NrhS-EmO3lO3y78gqETcOgnSKoMyiLqqAlcipf2XXoExoScCCeDzduR_KtFmvnUTFj34VsmEtyVQBswc5UZltAKx7VPUkY-BZ90yqHngkXqQT_tC8v6S3D7R8/s670/Al%20Jazeera%205.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="446" data-original-width="670" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhJaTWuNTz7G7j7JkPPr-4csSg1zbLt_y46Fx636bJjS9xGH6U_FgLKZxqzDJYSs9wGSa5NrhS-EmO3lO3y78gqETcOgnSKoMyiLqqAlcipf2XXoExoScCCeDzduR_KtFmvnUTFj34VsmEtyVQBswc5UZltAKx7VPUkY-BZ90yqHngkXqQT_tC8v6S3D7R8/w400-h266/Al%20Jazeera%205.jpg" width="400" /></a></div>غزہ کی لڑائی میں ٹی وی چینل الجزیرہ اسرائیل، امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے نیا چیلنج بن گیا ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ الجزیرہ کی حقائق سے بھرپور رپورٹنگ سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ انھوں نے قطر کی حکومت پر زور دیا ہے کہ الجزیرہ خطہ میں انتشار پھیلا رہا ہے۔ اس بناء پر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اسرائیل نے غزہ میں الجزیرہ کے بیورو آفس کو تباہ کر دیا ہے۔ غزہ میں الجزیرہ کے بیورو چیف کے گھر پر حملے میں اس کے خاندان کے افراد جاں بحق ہوئے ہیں ۔ الجزیرہ کے قیام کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ لندن میں بی بی سی کی عالمی سروس کے فیصلہ ساز ادارہ کے افسروں نے مشرق وسطیٰ کو خصوصی کوریج دینے کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ سعودی عرب سے بی بی سی کا عربی چینل شروع کیا جائے، یوں اس چینل کے قیام کے لیے بی بی سی میں کام کرنے والے عربی صحافیوں کو منتخب کیا گیا مگر اس وقت سعودی عرب میں ایک شاہانہ نظام تھا۔ جدہ سے شایع ہونے والے اخبارات اور ٹیلی وژن چینل سعودی حکومت کی ہدایات پر عملدرآمد کرنے کے پابند تھے۔ بی بی سی نے اپنی آزادانہ پالیسی کو تبدیل کرنے پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے انکار کیا، یوں یہ پروجیکٹ ابتدائی مرحلہ میں بند ہو گیا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس زمانہ میں قطر کے امیر کے سعودی عرب سے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ قطر نے ایران سے تعلقات قائم کر لیے تھے اور سرکاری ملکیت میں 1996 میں الجزیرہ کے عرب چینل کا آغاز ہو گیا۔ جب بی بی سی کا عربی چینل کا پروجیکٹ بند ہوا تو 2006 میں حکومت نے الجزیرہ کا انگریزی ایڈیشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا، یوں بی بی سی کے پروجیکٹ سے فارغ ہونے والوں کو الجزیرہ کے انگریزی چینل کو منظم کرنے کا موقع ملا اور دوحہ سے اس کی نشریات شروع ہوئیں۔ یوں مشرقِ وسطیٰ کا پہلا آزاد ٹی وی چینل وجود میں آیا۔ الجزیرہ نے یورپ، امریکا اور مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک بشمول اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب، اسلام آباد نئی دہلی وغیرہ میں اپنے بیورو آفسز قائم کیے۔ الجزیرہ نے افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر خصوصی توجہ دی۔ پاکستان کے ایبٹ آباد میں مقیم سعودی منحرف اسامہ بن لادن پر امریکی میرین دستوں کے آپریشن، اسامہ کی ہلاکت، کابل شہر پر امریکا اور اتحادیوں کے حملے جیسے اہم موضوعات پر خصوصی توجہ دی گئی۔ القاعدہ کی سرگرمیوں، القاعدہ کے قائدین کی افغانستان اور پاکستان میں گرفتاریوں کے بارے میں سب سے پہلے الجزیرہ کے رپورٹرز نے دنیا کو آگاہ کیا اور افغانستان میں امریکا اور اتحادیوں کی بمباری نے مساجد اور گھروں میں مقیم افراد کو نشانہ بنایا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgsKvrmQOkHkDUH4N22Pvus5L_a5ATChGYez9dhS5aM7xl8JyRibfd-TCTQQfsu-FWXQ6J8lO1bwYaFBxw7rkZQcZwYuz7ae-6asdldWTWVTeH9z6NKmv89rMK4TP2yeZLHXTMdGvWYH5wyAIiWbtuBRVb7rHN8SbBxxlodz364xBlV7wk63-SThYTAi0As/s2018/Al%20Jazeera%206.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1274" data-original-width="2018" height="253" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgsKvrmQOkHkDUH4N22Pvus5L_a5ATChGYez9dhS5aM7xl8JyRibfd-TCTQQfsu-FWXQ6J8lO1bwYaFBxw7rkZQcZwYuz7ae-6asdldWTWVTeH9z6NKmv89rMK4TP2yeZLHXTMdGvWYH5wyAIiWbtuBRVb7rHN8SbBxxlodz364xBlV7wk63-SThYTAi0As/w400-h253/Al%20Jazeera%206.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">امریکا اور اتحادی فوج کے تعلقات عامہ کے افسروں نے مرنے والوں کو طالبان دہشت گرد قرار دیا مگر الجزیرہ کی نشریات سے پوری دنیا کو پتہ چلا کہ مرنے والے بے گناہ تھے، یوں امریکی حکومت کو الجزیرہ کی آزادانہ پالیسی پر اعتراضات ہونے لگے۔ الجزیرہ نے اپنے قیام کے بعد سے فلسطینیوں کی جدوجہد کو بہت زیادہ کوریج دی۔ لبنان، اردن، مغربی کنارہ اور غزہ میں حماس اور حزب ﷲ کی کارروائیوں اور اسرائیل میں ان کارروائیوں کے اثرات کے بارے میں الجزیرہ نے معروضی رپورٹنگ کر کے ایسے بہت سے حقائق کو آشکار کیا جن کو مغربی میڈیا Kill کر دیتا تھا، یوں سب سے پہلا اعتراض اسرائیل کو ہوا اور اسرائیل کی حکومت نے تل ابیب میں قائم الجزیرہ کے بیورو کو پہلے ہی بند کر دیا تھا۔ مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں 2010 میں ایک عوامی جدوجہد شروع ہوئی جس کو Arab Spring کا نام دیا گیا۔ یہ عوامی جدوجہد تیونس سے شروع ہوئی اور مصر اور لیبیا تک پھیل گئی۔ سعودی عرب بھی اس عوامی احتجاج سے محفوظ نہ رہ سکا۔ سعودی عرب میں 2011 میں حکومت مخالف احتجاج ہوئے۔ الجزیرہ نے ان تمام واقعات کو بہت تفصیل سے اپنے ناظرین کے لیے ٹیلی کاسٹ کیا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جب سعودی عرب کو بھی الجزیرہ کی نشریات پر اعتراض ہو گیا اور سعودی عرب اور قطر کے درمیان دوبارہ مفاہمت کے لیے بات چیت ہوئی تو سعودی حکومت نے قطر کے سامنے جو مطالبات رکھے تھے ان میں سے ایک یہ تھا کہ الجزیرہ پر پابندی عائد کی جائے۔ قطر کی حکومت نے اس مطالبہ کو نہیں مانا البتہ الجزیرہ کی پالیسی میں کچھ تبدیلی کے رجحانات کی عکاسی نظر آنے لگی۔ جب حماس کے جہادیوں نے اسرائیل پر حملہ کیا اور پھر اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بم باری شروع کر دی تو اسرائیل نے اس بمباری میں خاص طور پر بچوں کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں فرائض انجام دینے والے 16 کے قریب صحافیوں کو قتل کیا۔ گزشتہ ہفتے 17 اکتوبر کو اسرائیل کی فوج نے الحئی اسپتال پر براہِ راست حملہ کیا۔ الحئی اسپتال جس کو دار الشفاء بھی کہا جاتا ہے غزہ کا سب سے بڑا اسپتال ہے۔ اسرائیل کے حملے میں 500 کے قریب مریض جاں بحق ہوئے جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ مرنے والوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل عملہ بھی شامل تھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">الجزیرہ نے اس اسپتال پر حملے کو تفصیلی طور پر کور کیا اور اس رپورٹنگ میں واضح شواہد سے ثابت کیا گیا کہ اسرائیل کے راکٹ نے الشفاء اسپتال کو تباہ کیا۔ یہ اسرائیل کی غزہ میں سب سے بڑی کارروائی تھی جس سے پوری دنیا میں اس واقعے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ سب سے پہلے اسرائیلی میڈیا نے الزام لگایا تھا کہ یہ راکٹ اسرائیل کا نہیں تھا بلکہ یہ راکٹ حماس کے فدائین نے پھینکا تھا۔ مغربی میڈیا نے اس بیانیہ کو نشر کرنا اور شایع کرنا شروع کیا۔ امریکا کے معروف نشریاتی اداروں فوکس اور سی این این وغیرہ نے بھی یہ الزام لگایا کہ اسپتال پر گرنے والا راکٹ اسرائیلی فوج کا نہیں تھا، یہ حماس کا راکٹ تھا۔ امریکا کے صدر جوبائیڈن بھی اسرائیل کے اس پروپیگنڈے کا شکار ہوئے۔ انھوں نے دورہ اسرائیل کے دوران یہ سرٹیفکیٹ جاری کیا کہ الشفاء اسپتال پر حملے میں اسرائیل ملوث نہیں، یوں الجزیرہ کو ایک متعصب چینل قرار دینے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس واقعے کے بارے میں آزادانہ تحقیقات نیو یارک ٹائمز کے سامنے آنے والی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ ان کے ماہرین نے تمام شہادتوں کے جائزے کے بعد حملے کے بارے میں وڈیوز کا بغور جائزہ لیا اور ماہرین نے اپنی رپورٹ میں اسرائیل کے اس دعویٰ کو مسترد کر دیا کہ حماس کے راکٹ سے اسپتال میں تباہی ہوئی۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں تحریر کیا گیا ہے کہ جو وڈیوز ٹیلی کاسٹ کی گئی ہے، اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ اسپتال پر گرنے والا میزائل حماس یا اسلامی جہادی گروپوں نے پھینکا تھا۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان وڈیوز کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ یہ راکٹ اسرائیل نے نہیں پھینکا۔ برطانیہ کے نشریاتی ادارے، بی بی سی نے جو تحقیقات کی تھیں ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ آزادانہ ذرایع سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی کہ اسرائیل نے الشفاء اسپتال پر حملہ کے بارے میں وڈیوز پیش کی ہیں ان کی تصدیق نہیں ہوتی۔ الجزیرہ مسلسل دباؤ میں ہے۔ مشرقِ وسطیٰ جہاں بیشتر ممالک میں اس وقت بادشاہتیں ہیں، کچھ ممالک میں شخصی آمریتیں اور کچھ میں فوجی حکومتیں ہیں اس ماحول میں الجزیرہ کا ایک کامیاب تجربہ ہے۔ الجزیرہ کے اس آزادانہ کردار کو اگر باقی ممالک بھی اپنا لیں تو اسرائیل اور مغربی پروپیگنڈے کا جواب دیا جا سکتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ڈاکٹر توصیف احمد خان </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-86823811850731661002023-10-24T23:55:00.000-07:002023-10-24T23:55:14.775-07:00کون کس سے فریاد کرے<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhniZS4LMux4puex6jDODZVARpqotbr00z6lYL4zG_greQrWkBMLFnzVlJUhVb8MNNAoTwaT3mAz2cUz9RD3STPehpfnwvEggE9yWKIFnmW-FCHEil6EXkNeTM8P8tjAGRnTYCp_ekbyYJLAQkoFg6fHZnQBwPBz-1nLpGatr4knWHsuPsWj1UakWIdlVui/s1920/Pakistan%20Economy%205.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1080" data-original-width="1920" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhniZS4LMux4puex6jDODZVARpqotbr00z6lYL4zG_greQrWkBMLFnzVlJUhVb8MNNAoTwaT3mAz2cUz9RD3STPehpfnwvEggE9yWKIFnmW-FCHEil6EXkNeTM8P8tjAGRnTYCp_ekbyYJLAQkoFg6fHZnQBwPBz-1nLpGatr4knWHsuPsWj1UakWIdlVui/w400-h225/Pakistan%20Economy%205.jpg" width="400" /></a></div>پاکستانی سماج میں جو دکھ اور تکالیف کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ غریب طبقہ ہو یا مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس، دیہی یا شہری افراد، کاروباری یا ملازم پیشہ افراد یا نئی نسل کی آوازیں ہوں ہمیں ان کا مشترکہ دکھ معاشی تکالیف کی شکل میں دیکھنے اور سننے کا موقع مل رہا ہے۔ گھر گھر کی کہانی معاشی بدحالی کے مختلف مناظر کے ساتھ لوگ بیان کرتے ہیں او ریہ سناتے وقت ان پر جو بے بسی یا مایوسی غالب ہے وہ بھی توجہ طلب مسئلہ ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج یا عدم توازن نے پورے سماج کی سطح پر گہری معاشی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، چینی، آٹا، دالیں، گھی، گوشت، ادویات، تعلیم اور صحت کے اخراجات سمیت دیگر بنیادی ضرورتوں پر جو ضرب کاری لگی ہے اس پر سب ہی سر جھکائے بیٹھے ہیں۔ لوگوں کی کہانیاں سنیں تو اپنی کہانی کا دکھ پیچھے رہ جاتا ہے۔ یقین کریں لوگوں نے اپنے گھروں کی قیمتی اشیا کو بیچ کر بجلی کے بلوں کی آدائیگی کی ہے۔ ٹیکسوں کے ظالمانہ نظام اور ریاستی وحکومتی سطح سے عام لوگوں سے جبری بنیادوں پر ٹیکسوں کی وصولی کے پورا نظام نے ہی لوگوں کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ طاقتور طبقات کو نظرانداز کر کے یا ان کو سیاسی و معاشی ریلیف دے کر عام آدمی کی زندگی میں مسائل بڑھائے جارہے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سفید پوش طبقہ یا ملازم پیشہ افراد کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنا دکھ کسی کو بیان کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور کوئی ایسا ریاستی , حکومتی یا ادارہ جاتی نظام موجود نہیں جو ان کی آوازوں کو بھی سن سکے یا ان کی شفافیت کی بنیاد پر داد رسی کر سکے۔ یہ ہی المیہ کی کہانی ہے جو آج پاکستان کی سیاست پر غالب ہے۔ آپ کسی بھی علمی یا فکری مجلس کا حصہ ہوں یا سیاسی مباحثوں کا یا کاروباری طبقات یا نوکری پیشہ افراد یا مزدود کہیں بھی بیٹھ جائیں تو دکھوں کی ایک لمبی کہانی سننے کو ملتی ہے۔ اس کہانی میں حکمرانی کے ظالمانہ نظام سے لے کر حکمران طبقات کی شاہانہ زندگی کے معاملات اور عام آدمی کو جو تکالیف ہیں سب کچھ سننے کو ملتا ہے۔ جس کی بھی کہانی ہو گی اس کا ایک ولن بھی ہو گا اور ہر فریق کا ولن ایک دوسرے سے مختلف ہے لیکن ان سب میں ایک مشترکہ دکھ حکمرانی کا بدترین نظام اور معاشی استحصال ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے مستقبل کا نقشہ کھینچیں اور ان کو بتائیں کے حالات درست ہونے والے ہیں یا آپ امید رکھیں تو وہ مزید کڑوا ہو جاتا ہے اور اس میں مزید غصہ اور انتقام کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اس طرح کی جذباتیت پر مبنی کہانیاں کے حالات درست ہونے والے ہیں سن سن کر خود ہمت ہار بیٹھا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgdhfjAtDCETx3w-hzSlTmTtiBnAzKBVYgrAPumcAcAgyWviKEFZgkSYJAJRfz-ABTKaeRB8LdFMnXzCwF7DiyheD24vaTJfrpZ8apBv0ofLwpZHb0fZre0psl_eAqZMRgny2PQne9XisISVg2zwvOyDJ1oE3JBpT953eg_hn1UmbgBuXigPKcC0b3SHKI5/s800/Pakistan%20Economy%206.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="480" data-original-width="800" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgdhfjAtDCETx3w-hzSlTmTtiBnAzKBVYgrAPumcAcAgyWviKEFZgkSYJAJRfz-ABTKaeRB8LdFMnXzCwF7DiyheD24vaTJfrpZ8apBv0ofLwpZHb0fZre0psl_eAqZMRgny2PQne9XisISVg2zwvOyDJ1oE3JBpT953eg_hn1UmbgBuXigPKcC0b3SHKI5/w400-h240/Pakistan%20Economy%206.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حکومتی نظام برے طریقے سے اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے اور لوگوں کو اب اس نظام پر اعتماد نہیں رہا۔ یہ واقعی ایک بڑا المیہ ہے جو اس وقت ریاستی سطح پر ہمیں درپیش ہے۔ مسئلہ محض ماتم کرنا , دکھ بیان کرنا یا کسی کو بھی گالیاں دینا نہیں اور نہ ہی یہ مسائل کا حل ہے لیکن سوال یہ ہے طاقت ور طبقہ یا فیصلہ ساز قوتیں کیونکر لوگوں کی آوازوں کے ساتھ اپنی آواز نہیں ملا رہی اور کیوں لوگوں کے بنیادی نوعیت کے معالات کے حل کے بجائے اس سے فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ارباب اختیار میں یہ سوچ کیونکر غالب نہیں ہو رہی کہ ریاستی یا حکومتی نظام موجودہ طریقوں یا حکمت عملی یا عملدرآمد کے نظام سے نہیں چل سکے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام عملاً گونگا اور بہرہ ہو گیا ہے اور لوگوں کے دکھ اور آوازوں کو سننے کی صلاحیت سے محروم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں اور حکمران طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے اور لوگ حکمران طاقتور طبقات کو اپنے مسائل کی جڑ سمجھ رہے ہیں۔ سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ سیاسی نظام , سیاسی جماعتیں، سیاسی قیادت اور سیاسی کارکن سب ہی غیر اہم ہوتے جارہے ہیں۔ جن سیاسی افراد نے ملک کے سیاسی نظام کی باگ ڈور کی قیادت کرنا تھی وہ کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">لوگوں کو ایک ایسے ظالمانہ ادارہ جاتی نظام میں جکڑ دیا گیا ہے کہ لوگ خود کو ہی غیر اہم سمجھنے لگ گئے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ہم وہ طبقہ نہیں جن کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا بلکہ یہ ملک ایک خاص طبقہ کے مفادات کی تقویت کے لیے بنایا گیا اور ہم اس میں محض تماشائی کی حیثیت سے موجود ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر کئی سیاسی افراد جو قومی اور صوبائی اسمبلیو ں کے سابق ارکان ہیں اور جنھوں نے آنے والے انتخابات میں حصہ لینا ہے سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے بقول ہمیں یہ ہی سمجھ نہیں آرہی کہ اگر انتخابات ہونے ہیں تو ہم عوام کا سامنا کیسے کریں گے اور کیوں لوگ ہمیں ان حالات میں ووٹ دیں گے۔ کیونکہ ہم نے اپنے سیاسی حکمرانی کے نظام میں کچھ ایسا نہیں کیا کہ لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہو سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ کدھر جائیں اور کس سے فریاد کریں کیونکہ ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ یہ تو شکر کریں کہ ان بدترین معاشی حالات میں ایسے خدا ترس لوگ یا خوشحال لو گ موجود ہیں جو اپنے اردگرد لوگوں کی خاموشی کے ساتھ مدد کر رہے ہیں ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">میں کئی لوگوں کو انفرادی سطح پر جانتا ہوں جو بغیر کسی شور شرابے کے اپنے اردگرد ہمسائیوں یا رشتہ داروں یا دوست احباب کی مدد میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان خد ا ترس افراد کے مقابلے میں ریاستی اور حکومتی نظام کدھر ہے اور کیونکر لوگوں کے ساتھ لاتعلق ہوتا جارہا ہے ریاست اور حکومت کا جوابدہ ہونا , ذمے داری کا احساس ہونا , لوگوں کو ریلیف دینا اور ان کی زندگیوں میں خوشیا ں لانا ہی ریاستی نظام کی ساکھ کو قائم کرتا ہے۔ لوگوں کو اب طاقتور طبقات کی جانب سے امید نہیں چاہیے بلکہ وہ عملی بنیادوں پر اقدامات دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ بھی فوری طور پر ایسے اقدامات جو ان کی زندگیوں میں کچھ مثبت نمایاں تبدیلیاں لا سکے۔ موجودہ حالات میں مڈل کلاس یا درمیانی درجے کی کلاس کو ہم نے واقعی مفلوج کر دیا ہے اور ان کو اپنے رہن سہن میں مختلف نوعیت کے معاشی سمجھوتے کرنے پڑرہے ہیں۔ ان حالات کے ذمے دار وہی ہیں جن کو حکمرانی کرنے کا حق ملا، اختیارات ملے، وسائل ملے اور لوگ ان ہی کو جوابدہ بنانا چاہتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جنگ وہ نہیں جو اسلحہ کی بنیاد پر کسی دشمن ملک سے لڑی جائے، ایک جنگ پاکستان کے لوگ پاکستان کے اندر حکمرانی کے نظام سے لڑ رہے ہیں اور اس جنگ نے لوگوں کو سیاسی طور پر تنہا کر دیا ہے یا اس ریاستی نظام سے لاتعلق بھی۔ اس جنگ کا دشمن ظالمانہ حکمرانی کا نظام ہے اور اس میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو عوام دشمنی کو بنیاد بنا کر اپنے لیے وسائل کو سمیٹ رہے ہیں۔ یہ جنگ عملاً ریاستی نظام کمزور کر رہی ہے اور لوگو ں کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور دنیا میں اپنی منزل تلاش کریں۔ ہمیں اگر واقعی ملک میں سول نافرمانی سے بچنا ہے یا ملک کو ایک بڑی ہیجانی یا انتشار یا ٹکراو کی سیاست سے باہر نکالنا ہے تو ہمیں بہت کچھ نیا کرنا ہو گا۔ غیرمعمولی اقدامات ہماری بنیادی نوعیت کی ترجیحات ہونی چاہیے اور ایسی ترجیحات جس میں طاقتور طبقات کو قانون کے شکنجے میں لایا جائے اور عام آدمی کے مقدمہ کو زیادہ فوقیت دی جائے لیکن سوال یہ ہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور کون لوگوں کے دکھوں میں خود کو ایک بڑے سہارے کے طور پر پیش کریگا کیونکہ ریاستی اور حکومتی نظام آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا اور نہ ہی طاقتور طبقہ اسے آسانی سے بدلنے کی اجازت دیتا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ ایک سیاسی جدوجہد کی کہانی ہے جہاں ہمیں ریاستی یا حکومتی نظام پر ایک بڑے دباؤ کی سیاست پیدا کرنا ہوتی ہے۔ یہ کام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کرتی ہیں لیکن وہ تو سیاسی بانجھ پن کا شکار ہیں اور ان کے مفادات عوامی مفادات کے برعکس نظر آتے ہیں۔ ایسے میں لوگ کدھر جائیں گے، ڈر ہے کہ لوگوں میں موجود غصہ ایک بڑے انتقام کی سیاست کی صورت میں آج نہیں تو کل سامنے آئے گا۔ سیاسی نظام کی قیادت سے لاتعلق عوامی ردعمل کسی بھی صورت میں ریاستی مفاد میں نہیں ہوتا کیونکہ یہ عمل حالات کو اور زیادہ خراب کرتا ہے۔ اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش سنبھالیں اور خود کو عوام کے ساتھ جوڑیں یہ ہی حکمت عملی ہمیں کچھ بہتری کا راستہ دے سکتی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سلمان عابد </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-58690676552879127042023-10-23T00:45:00.001-07:002023-10-23T00:45:40.819-07:00نواز شریف، شیر سے کبوتر تک : وسعت اللہ خان <h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhj3XJrCOR15G9mTVdVbaNQ5ONw4bpBabhjc86BWfK7MvKoNa0lYBaLB-8eeyJ06GXMac3yOXfriXR1E1OZEMrrmuvD-_0LGeAUJwbvqjl08iDnoRd7hbNlZMN-AbrtNK9kSntWZJ-7vKDQqyCbAtQzkzDiiJ0lCo4S0ExwfBi7Iz1XX4ivTkC5tEIGdMTL/s800/Nawaz%20Sharif%207.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="532" data-original-width="800" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhj3XJrCOR15G9mTVdVbaNQ5ONw4bpBabhjc86BWfK7MvKoNa0lYBaLB-8eeyJ06GXMac3yOXfriXR1E1OZEMrrmuvD-_0LGeAUJwbvqjl08iDnoRd7hbNlZMN-AbrtNK9kSntWZJ-7vKDQqyCbAtQzkzDiiJ0lCo4S0ExwfBi7Iz1XX4ivTkC5tEIGdMTL/w400-h266/Nawaz%20Sharif%207.jpg" width="400" /></a></div>میاں جب جب باز بننے سے باز نہ آئے تب تب بازی چھنتی چلی گئی۔ چنانچہ اس بار انھوں نے جہاندیدہ لیگیوں کی درخواست پر اقبال کا شاہین احتیاطاً دوبئی میں چھوڑا اور مینارِ پاکستان کے سائے میں بازو پر کبوتر بٹھا لیا۔ یہ احتیاط بھی ملحوظ رکھی کہ کبوتر لقا نہ ہو کہ جس کی دم پنکھ کی طرح پھیلی اور گردن اکڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بلکہ سادہ سا غٹرغوں ٹائپ باجرہ کھانے والا کبوتر ہو (باجرے کو براہِ کرم باجرہ ہی پڑھا جائے)۔ اس قدر پھونک پھونک کے تیاری کی گئی کہ اس بار جلسے میں نہ تو کوئی پنجرہ بند شیر نظر آیا اور نہ ہی یہ نعرہ لگا کہ ’دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا آیا‘۔ مبادا و خدانخواستہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اگر میاں شیر ہے تو پھر ہم کون ہیں؟ میاں صاحب نے ابتدا میں ہی شکیل بدایونی کے دو الگ الگ مصرعہِ ثانی جوڑ کے ایک نیا شعر اسمبل کیا اور ادب سے نابلد اسٹیبلشمنٹ کی توجہ چاہی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں<br />زرا نظر تو ملے پھر انہیں سلام کروں<br />مگر اسی غزل کا یہ سالم شعر احتیاطاً نہیں پڑھا</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">انہی کے ظلم کا شکوہ کروں زمانے سے<br />انہی کے حق میں دعائیں میں صبح و شام کروں</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ان کی تقریر سے پہلے برادرِ خورد شہباز شریف نے ’امیدِ پاکستان، معمارِ پاکستان اور عظیم مدبر‘ کو مخاطب کر کے اشارہ دے دیا تھا کہ بڑے بھیا کے خطاب کی روح کیا ہو گی۔ انھیں اچھی طرح سمجھا دیا گیا تھا کہ آپ اب ماشااللہ تہتر برس کے ہیں۔ آپ کی صحت بھی پہلے جیسی نہیں۔ آپ کو شاید ایک بار اور بھاری ذمہ داریاں اٹھانا پڑ جائیں۔ لہذا ’ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کرے‘ یا ’اپنے حلف کی پاسداری کرے‘ یا ’جمہوریت کو بار بار پٹڑی سے اتارنے والوں کا احتساب ہونا چاہیے‘ یا ’ووٹ کو عزت دو‘ جیسے گھاتک جملے ہرگز زبان پر نہیں آنے چاہییں۔ بس پولی پولی باتیں کرنی ہیں۔ مثلاً ’ہم سب کو ساتھ لے کے چلنا چاہتے ہیں‘، ’کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے‘، ’معیشت کو مل کے دلدل سے نکالیں گے‘، ’مہنگائی ختم کریں گے‘، ’ہمسائیوں سے تعلقات اچھے کرنے کی کوشش کریں گے‘، ’فلسطین اور کشمیر کے بارے میں اصولی موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘، ’ہم زندہ قوم ہیں نیز نو مئی دوبارہ نہیں ہونے دیں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjJwB6HGcze35ICn5H7TbRQ57fkIT7pVWd1S00Wj-sXIjy-xV_Y4suojIohRddVPpcRIMNqSWxhHufXXovggtvEvHNTKf6l6kjWFoZ7sWMGdQq1Xkhyphenhyphenx86CiB1hvaSzZ3G-qmhLX7yKPMQFYV_3srzzTh9nKqj5gJ9XYF9J6RsTV-1mLK_nVFqihG5Z2P7w/s6376/Nawaz%20Sharif%206.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="4251" data-original-width="6376" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjJwB6HGcze35ICn5H7TbRQ57fkIT7pVWd1S00Wj-sXIjy-xV_Y4suojIohRddVPpcRIMNqSWxhHufXXovggtvEvHNTKf6l6kjWFoZ7sWMGdQq1Xkhyphenhyphenx86CiB1hvaSzZ3G-qmhLX7yKPMQFYV_3srzzTh9nKqj5gJ9XYF9J6RsTV-1mLK_nVFqihG5Z2P7w/w400-h266/Nawaz%20Sharif%206.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">گمان ہے کہ میاں صاحب کو لندن میں تین تصاویر بھی دکھائی گئی ہوں گی۔ عمران خان، ڈاکٹر عارف علوی اور انوار الحق کاکڑ کی۔ اور پھر فیصلہ میاں صاحب پر چھوڑ دیا گیا ہو گا۔ انھیں بریف کیا گیا ہو گا کہ یہ وہ پاکستان نہیں جو انھوں نے چار برس پہلے چھوڑا تھا۔ آپ کے تو صرف پلیٹلیٹس بدلے گئے۔ پاکستان کی تو پلیٹیں بدل دی گئیں۔ آپ تو خوش قسمت ہیں کہ آپ کو عدالت نے سزا سنائی اور عدالت نے ہی آپ کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور عدالت نے ہی آپ کو علاج کے لیے باہر بھیجا اور انھی عدالتوں نے آپ کو مجرم قرار دینے کے باوجود آپ کو عارضی ضمانت بھی دی تاکہ آپ بلا خوف و تردد سٹیج پر جلوہ افروز ہوں۔ انھیں ہیتھرو ایئرپورٹ پر بتایا گیا ہو گا کہ آپ سے مرتضیٰ بھٹو والا سلوک نہیں ہو گا کہ جو بے نظیر کی وزراتِ عظمی کے دوران تین نومبر انیس سو ترانوے کو کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں اشتہاری مجرم قرار دیے جانے کے سبب انھیں سیدھا لانڈھی جیل پہنچا دیا گیا اور ان کی والدہ ایئرپورٹ پر ٹاپتی رہ گئیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">نہ ہی اس بار آپ اس حالت سے گزریں گے جب آپ کی اہلیہ لندن میں موت و زیست کی کش مکش میں تھیں مگر آپ اور آپ کی صاحبزادی جب چودہ جولائی دو ہزار اٹھارہ کو لاہور ایئرپورٹ پر اترے تو آپ دونوں کو مطلوب ملزم کے طور پر حراست میں لے کے اسلام آباد پہنچا دیا گیا۔ حتیٰ کہ آپ کے برادرِ خورد بھی ٹریفک سگنل پر مسلسل لال بتی کے سبب آپ کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہ پہنچ سکے۔ میاں صاحب کو بتایا گیا ہو گا کہ فضا اگر آپ کے حق میں عارضی طور پر بدلی ہوئی لگ رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلا زمانہ بھی جوں کا توں لوٹ آئے گا۔ آج کے پاکستان میں آئین کے ورقوں کو پھاڑ کے جہاز بنا کے اڑانا ایک معمول ہے، عدالت ضرور ہے مگر ترازو ہوا میں جھول رہا ہے، گرفتاری اور ایف آئی آر ایک لگژری ہے۔ رات کو انسان سوتا ہے تو صبح بستر خالی ہوتا ہے۔ گھر والے بھی نہیں جانتے کہ بندہ چالیس روزہ چلے پر گیا ہے، شمالی علاقہ جات میں دوستوں کے ساتھ عیاشی کر رہا ہے یا کسی غار میں بیٹھا سوچ رہا ہے کہ مجھے یہاں سے اسلام آباد پریس کلب جانا ہے کہ کسی ٹی وی اینکر کو فون کرنا ہے یا کسی جہانگیر ترین کے گھر کی گھنٹی بجانی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ہو سکتا ہے طیارے کی لینڈنگ سے پہلے میاں صاحب سے یہ ’قسم بھی چکوائی گئی ہو‘ کہ جلسے میں اقبال کے کسی ایسے شعر کا حوالہ نہیں دینا جس میں شاہین اڑ رہا ہو۔ حبیب جالب آج کے بعد آپ کے لیے شجرِ ممنوعہ ہے۔ زیادہ سے زیادہ آپ پروین شاکر پڑھ سکتے ہیں یا طبیعت بہت ہی مچلے تو غالب سے کام چلانا ہے۔ چنانچہ میاں صاحب نے اپنے تاریخی خطاب کا اختتام اس شعر پر کیا۔<br />غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے<br />بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے<br />جس طرح چھ برس پہلے میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسز نمٹانے کے لیے ثاقب نثار نے نیب عدالتوں پر ایک نگراں جج مقرر کیا تھا، لگتا ہے واپس آنے والے میاں نواز شریف پر شہباز شریف کو نگراں مقرر کیا گیا ہے۔ تاکہ جب بھی بڑے میاں صاحب عالمِ جذب میں جانے لگیں تو ان کے کان میں برادرِ خورد سرگوشی کر دیں کہ بے شک انسان فانی ہے۔ جولیس سیزر کا کوئی چھوٹا بھائی نہیں تھا۔ لہذا اسے ایک مصاحب کی ڈیوٹی لگانا پڑی تھی کہ جب بھی میں دورانِ خطابت جوش میں آ کے بڑک بازی میں مبتلا ہوں تو تمھیں میرے کان میں بس یہ کہنا ہے ’سیزر تو لافانی نہیں ہے‘۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">میاں صاحب نے جلسے کے اختتام پر قوم کی خیر کے لیے اجتماعی دعا کروائی۔ ہماری بھی دعا ہے کہ اگر میاں صاحب کو چوتھی بار موقع ملے تو پہلے کی طرح اپنا دماغ لڑا کے دل سے فیصلے کرنے کے بجائے خود کو اس بار نگراں وزیرِ اعظم ہی سمجھیں تاکہ کوئی ایک مدت تو پوری ہو سکے کم از کم۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وسعت اللہ خان </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ بی بی سی اردو</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-84368858550326256562023-10-08T05:29:00.001-07:002023-10-08T05:29:41.597-07:00وطن کی فکر کر ناداں <h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh-5Gcb8dM6YeNWwb6rRFGLR0cGEs9koGg4eRxg965Cq5jh0OZiZBX44D6eRM3C3gNl0EhFjXfLjE2soJsgFxEoPqLKmMgCqd_UUOWPbkNM4E31dvgnrS6i5bEeLN8i3yQdf0CkKL68HO8Qpzjf4j1zK_x-5C7E8_Cs0jjMUMzvOLrMqZXb_LikXVaHvazH/s1000/Pakistan%20economic%20crisis%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="600" data-original-width="1000" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh-5Gcb8dM6YeNWwb6rRFGLR0cGEs9koGg4eRxg965Cq5jh0OZiZBX44D6eRM3C3gNl0EhFjXfLjE2soJsgFxEoPqLKmMgCqd_UUOWPbkNM4E31dvgnrS6i5bEeLN8i3yQdf0CkKL68HO8Qpzjf4j1zK_x-5C7E8_Cs0jjMUMzvOLrMqZXb_LikXVaHvazH/w400-h240/Pakistan%20economic%20crisis%204.jpg" width="400" /></a></div>دردِ دل رکھنے والوں کی ہر محفل میں ’’گھرکی بربادی‘‘ کا رونا رویا جارہا ہے، پڑھے لکھوں کی نشست میں بربادی کی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے، سنجیدہ لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ وطنِ عزیز کو اس ناگفتہ بہ حالت تک پہنچانے میں کس حکمران نے سب سے زیادہ حصّہ ڈالا ہے اور کونسا ادارہ جسدِ ملّت کو لگنے والے ناقابلِ علاج امراض کا زیادہ ذمّے دار ہے۔ صاحبانِ دانش کی بہت بڑی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ خطرناک بیماری کا آغاز 2017 میں رجیم چینج یعنی منتخب وزیرِ اعظم کو انتہائی مضحکہ خیز طریقے سے ہٹانے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور پھر 2023 تک اس کی شدّت میں اضافہ ہوتا گیا۔ حکومتی ایوانوں کے احوال سے باخبر حضرات اور اقتصادی ماہرین کی اکثریّت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی کا دورِ حکومت ملکی معیشت کی بنیادیں کھوکھلی کر گیا اور اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نالائقی، نااہلی، افتادِ طبع، نرگسیّت اور فسطائی سوچ کا بڑا بنیادی کردار تھا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کے حکماء بھی اپنے تمام تر ٹوٹکوں اور تجربوں کے باوجود مرض پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ شہباز شریف صاحب آئی ایم ایف سے معاہدے کے علاوہ کوئی کارنامہ نہ دکھا سکے، وہ پنجاب کی طرح چند منظورِ نظر بیوروکریٹوں پر بہت زیادہ تکیہ کرتے رہے، محدود سوچ کے حامل اور تعصبات کے مارے ہوئے یہ بابو قومی سطح کے مسائل کا ادراک ہی نہ کرسکے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وہ صرف یاریاں پالتے رہے اور میرٹ کو پامال کرتے ہوئے کرپٹ افسروں کو اہم عہدوں پر لگواتے، اور بدنام افسروں کو پروموٹ کرواتے رہے۔ اس بار پی ایم آفس میں تعینات بیوروکریٹوں نے وزیرِاعظم کا امیج خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لہٰذا شہباز شریف صاحب کی تمام تر بھاگ دوڑ کے باوجود پی ڈی ایم کی حکومت کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ مختلف ادارے سروے کروا رہے رہے ہیں کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، عدلیہ اور بیوروکریسی میں سے کس کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ میرے خیال میں وطنِ عزیز کو نقصان پہنچانے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فیصلہ سازی جس کے ہاتھ میں ہو گی اور جس کے پاس اختیارات زیادہ ہوں گے اصلاحِ احوال کی سب سے زیادہ ذمّے داری بھی اس کی ہو گی۔ لگتا ہے وہاں چیلنجز کی سنگینی کا بھی ادراک نہیں ہے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے درست افراد کے انتخاب (Right man for the right job) کی صلاحیّت کا بھی فقدان ہے۔ اہلِ سیاست کی یہ بہت بڑی ناکامی ہے کہ وزیراعظم اور قائدِ حزبِ اختلاف (چاہے نام کا ہی تھا) دونوں اپنے آئینی اختیار سے دستبردار ہو گئے اور نگران وزیراعظم کے لیے انھیں جو نام دیا گیا وہ انھوں نے پڑھ کر سنا دیا۔ عام تاثر یہی ہے کہ ایک دو پروفیشنلز کے علاوہ کابینہ کا انتخاب بادشاہوں کی طرح کیا گیا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi87o9dGrUgdl0WHqPQFdjuJz-_HQ3damsb5aYP8ww2FG64YMQFQxxaMfElOZLE8N26OeTAO_6I_1oA_DPgCuAU5mM6KaHnPmL-qCBnAMrVC3qovLTOmlIG6LFEhNlW6340To8e11SM2VR2ypxX0dSRgDCxoqmp365edQN6v9TbYo6JU17fMH3jBz8SNYld/s3500/Pakistan%20economic%20crisis%205.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1968" data-original-width="3500" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi87o9dGrUgdl0WHqPQFdjuJz-_HQ3damsb5aYP8ww2FG64YMQFQxxaMfElOZLE8N26OeTAO_6I_1oA_DPgCuAU5mM6KaHnPmL-qCBnAMrVC3qovLTOmlIG6LFEhNlW6340To8e11SM2VR2ypxX0dSRgDCxoqmp365edQN6v9TbYo6JU17fMH3jBz8SNYld/w400-h225/Pakistan%20economic%20crisis%205.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کسی شاعر کی کوئی غزل پسند آگئی تو اسے وزیر بنا دیا، کسی معمّر خاتون کی لچھے دار باتیں اچھی لگیں تو اسے مشیر لگا دیا۔ کسی مصوّر کی تصویر دل کو بھا گئی تو اس سے بھی وزارت کا حلف دلوا دیا، کیا ایسی کابینہ اس قدر گھمبیر مسائل کا حل تلاش کرسکے گی؟ اس وقت سب سے تشویشناک بات عوام کی بے چینی اور ناامیدی ہے۔ انھیں کہیں سے امید کی کرن نظر نہیں آتی، نوجوانوں میں یہ مایوسی اور ناامیدی بہت زیادہ بڑھی ہے اور وہ بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، میں نے پچھلا کالم اسی بات پر لکھا تھا اور کچھ ملکوں کی مثالیں دے کر لوگوں کو ملک چھوڑنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس پر بہت سی میلز موصول ہوئیں، کچھ لوگوں نے اتفاق بھی کیا مگر کچھ نے شدید اختلاف کیا۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک نوجوان دانشور محمد طیّب فائق کھیتران کی میل قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔ ’’جب سے آپ کی تحریریں پڑھ رہا ہوں تب سے لے کر آج تک یہ پہلی تحریر ہے جس میں ایسا محسوس ہوا ہے کہ یہ تحریر لکھتے ہوئے آپ کے ذہن و دل آپ کے ہمنوا نہیں بن سکے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک محب وطن پاکستانی ہونے کے ناتے آپ نے اپنا فریضہ ادا کرنا ضروری سمجھا لیکن یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ آپ نے جس انداز میں یا جس بوجھل دل سے عوام کو روکنے کی کوشش کی ہے یہ آواز عوام کے دلوں تک نہیں پہنچے گی۔ آپ ہی بتائیں کہ جس ملک میں بھوک و افلاس، بے روزگاری اور مہنگائی، بد امنی، اسٹریٹ کرائمز، اور لاپتہ افراد جیسی بلائیں روزانہ صبح اٹھتے ہی نئی نئی صورتوں میں نازل ہوتی ہوں، جہاں کرپشن کا کبھی نہ رک سکنے والا سیلاب سب کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہو۔ ملک کے عوام حالات سے دل برداشتہ ہو کر خود کشیاں کر رہے ہوں بچوں کے گلے کاٹ رہے ہوں، بچے برائے فروخت یا گردہ برائے فروخت کے چارٹ گلے میں آویزاں کیے چوک پر کھڑے ہوں، جس ملک میں مزدور کی کل آمدن سے زیادہ بجلی کا بل آتا ہو اور احتجاج کرنے پر ڈنڈے پڑتے ہوں یا جیل بھیج دیا جاتا ہو آٹے کی قطار میں کھڑے ہوکر کئی عورتیں جان کی بازی ہار گئی ہوں، ملک قرض در قرض اور سود در سود کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہو، حکمران طبقے کی کرپشن اور عیاشیاں مزید بڑھتی جا رہی ہوں وہاں بندہ کسی کو روکے بھی تو کس امید پر؟؟</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس ملک میں پہلے تین طبقے ہوتے تھے۔ امیر، متوسط اور غریب لیکن اب صرف دو طبقے ہیں امیر اور غریب جو متوسط تھے وہ غریب ہو چکے ہیں اور جو غریب تھے وہ غربت کی لائن سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ آپ نے جاپان کا حوالہ دیا، جاپان پر تو ایک ایٹم بم گرایا گیا تھا ہم پر تو حکمران ہر روز ایٹم بم گراتے ہیں۔ جس جس نے بھی اس ملک کو لوٹا، برباد کیا کوئی ہے ایسا جو اُن کے گریبان میں ہاتھ ڈال سکے؟ یقیناً کوئی بھی نہیں۔ جب اشیائے خورد و نوش ہی اتنی مہنگی ہو چکی ہیں کہ انسان اگر بیس ہزار کما رہا ہے تو صرف کھانے پینے کا خرچ ہی پچاس ہزار تک چلا جائے تو وہ بندہ کیسے پورا کرے؟ کوئی متبادل راستہ؟ مڈل کلاس کے لوگوں نے بھی حالات سے مجبور ہو کر بھیک مانگنا شروع کر دیا ہے۔ پھر کسی جانے والے کو ہم کس طرح قائل کر سکتے ہیں کہ تم نہ جاؤ یہ ملک جنت بن جائے گا؟۔ ہم پر کوئی آفت نازل نہیں ہوئی بلکہ ہم ایک منظم طریقے سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برباد کیے جا رہے ہیں۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمارت کو گرانے میں چند لمحات لگتے ہیں اور بنانے میں سالہا سال لگ جاتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس ملک کی اشرافیہ اور حکمرانوں نے 75 سال اس کی عمارت کو گرانے میں ہی تو صرف کیے ہیں۔ آپ اگر اگلی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بجائے ان لوگوں کو روکنے کے ان کے نکلنے کے لیے کوئی محفوظ راستہ تجویز فرمائیں‘‘۔ اسی نوعیّت کی اور میلز بھی آئیں جن میں بڑے تلخ حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ چلیں میں اپنے مشورے میں ترمیم کر لیتا ہوں’’آپ بہتر مستقبل کے لیے جہاں جانا چاہتے ہیں جائیں مگر وطنِ عزیز کو ہی اپنا گھر سمجھیں، گھر کی خبر لیتے رہیں اور اس سے ناطہ نہ توڑیں اور آپ کا گھر کبھی مدد کے لیے پکارے تو اس کی پُکار پر دل و جان سے لبّیک کہیں‘‘۔ گھر کی معیشت آئی سی یو میں ہو تو گھر کے ہر فرد کے دل میں اس چیز کا شدید احساس اور تشویش پیدا ہونی چاہیے، ہر فرد کو اپنے طرزِ زندگی میں سادگی اور کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے، گھر کے اخراجات میں واضح طور پر کمی آنی چاہیے، مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے مقتدر حلقے اخراجات میں کمی کرنے یا سادگی اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ اشرافیہ کسی قسم کے ایثار کے لیے آمادہ نہیں، بیوروکریسی کے اللّے تللّے اور عیاشیاں کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">چاہیے تو یہ تھا کہ سینئر افسروں کو صرف ضرورت کے لیے ایک سرکاری گاڑی مہیّا کی جاتی اور باقی سب واپس لے لی جاتیں، مگر گاڑیاں واپس لینے کے بجائے ان کے جونیئر ترین افسروں کے لیے بھی مہنگی ترین گاڑیاں خریدی گئی ہیں۔ ان حالات میں بیوروکریسی کو کچھ شرم اور حیاء کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، خود مملکت کے سربراہ کا رویّہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ملک کی معیشت ڈوب رہی ہے اور صدر تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ لگتا ہے پورے کارواں کے دل سے احساسِ زیاں ہی جاتا رہا ہے اور کسی میں متاعِ کارواں چھننے کا افسوس، تشویش یا احساس تک نہیں ہے اور یہی چمن کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">؎ وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے<br />تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">موجودہ انتہائی تشویشناک حالات کا فوری تقاضا ہے کہ سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت اپنے ذاتی اور گروہی مفاد سے اوپر اُٹھے اور صرف ملک کی بقاء اور فلاح کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے، ان کے درمیان ایک نیا عمرانی معاہدہ طے پائے اور ایک نیا چارٹر اور روڈ میپ تشکیل دیا جائے۔ اس کے بعد یہ تمام لوگ قائدؒ کے مزار پر جاکر اس پر صدقِ دل سے عمل کرنے کا عہد کریں اور پھر ہر ادارہ اور ہر فرد پورے اخلاص اور نیک نیّتی سے اس عہد پر عمل پیرا ہو۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قوم کے ہر فرد اور ہر ادارے کے اندر ملک کا درد اور سادگی اور ایثار اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کر دے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ذوالفقار احمد چیمہ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-12454633484260831022023-09-04T03:12:00.001-07:002023-09-04T03:12:52.236-07:00ایف بی آر اور غریب<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjSzFi_jTU2Ty6t3uhp8zxEpXIgPce5zsbOdpbF-9PwYtQ1qTw2BWCNGBLpqhDBdqhvHtCYvXOMI7lbStXiAhzFw0Ie-WKNeAPj18U0xUaOsFOgvKXM9b-JpI1675aISEp3rJVrM25E40Ec0BWcZ6eXK11dnkWY85MM5oovUD3chKRGk9PuEIQVHRJ3832/s1230/FBR%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="757" data-original-width="1230" height="246" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhjSzFi_jTU2Ty6t3uhp8zxEpXIgPce5zsbOdpbF-9PwYtQ1qTw2BWCNGBLpqhDBdqhvHtCYvXOMI7lbStXiAhzFw0Ie-WKNeAPj18U0xUaOsFOgvKXM9b-JpI1675aISEp3rJVrM25E40Ec0BWcZ6eXK11dnkWY85MM5oovUD3chKRGk9PuEIQVHRJ3832/w400-h246/FBR%203.jpg" width="400" /></a></div>عجب تیری سیاست عجب تیرا نظام جاگیرداروں ، مل مالکان کو سلام جبکہ غریبوں کا کردیا ہے تو نے جینا حرام، ہماری ریاست کا کچھ یہ ہی حال ہے، ریاست کے پارلیمان میں بیٹھے ہوئے ہر شخص کا غریب سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عمران خان کا سچ سے رہا ہے۔ پارلیمان میں بیٹھے ہوئے لوگ ہوں یا اسلام آباد میں بیٹھا بابو، یہ تمام لوگ عوام کے پیسے پر عیاشیاں کر رہے ہیں، ان کی اولادیں بھی عوام کے پیسے پر دنیا بھر گھومتی ہیں، میرے اور آپ کے بچوں کا علاج پاکستان میں مفت نہیں ہو سکتا مگر ہمارے سیاسی لوگوں اور ان کی اولادوں کے علاج کے لیے بیرون ملک میں بھی انسانی ہمدردی کے نام پر گرانٹس جاری کر دی جاتی ہیں۔ لیکن ہمارے پالیسی سازوں کا اگر ٹیکس چیک کیا جائے تو ان کے سر شرم سے جھکیں نہ جھکیں ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ یہ ہیں ہمارے پالیسی ساز جو ہر حوالے سے ٹیکس چوری میں کسی سے کم نہیں ہیں مگر وہ کوئی ایسا موقع نہیں چھوڑتے جس سے عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالنے میں کمی ہو۔ ایسے میں ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سینئر سٹیزن کو بھی نہیں بخشتے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjpqg43sIJfQv4QZ0OrKIWS120_JUXVOecV3KJVCXOi1wGWFKjnGFAC7oLJWrxV-J2eseKrWj-Nhw0FZiIqdZxUBTOHg8z2RJWxxjv_fgl68geodSp_s727Swqty0GEM-xVVnoeV1drCjMAC8jS8g52gbXQsJ18GjtVlEZEtzoDSWRH9ZqEOpCvK7z0571h/s1200/FBR%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="800" data-original-width="1200" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjpqg43sIJfQv4QZ0OrKIWS120_JUXVOecV3KJVCXOi1wGWFKjnGFAC7oLJWrxV-J2eseKrWj-Nhw0FZiIqdZxUBTOHg8z2RJWxxjv_fgl68geodSp_s727Swqty0GEM-xVVnoeV1drCjMAC8jS8g52gbXQsJ18GjtVlEZEtzoDSWRH9ZqEOpCvK7z0571h/w400-h266/FBR%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حال ہی میں حکومت نے بہبود سرٹیفکیٹ ، شہداء فیملی اکاؤنٹ اور پنشنرز بینیفٹ اکاؤنٹ کی آمدنی پر پانچ فیصد انکم ٹیکس عائد کر دیا ہے، جو سال 2023ء سے لاگو ہو گا، یعنی شہداء کو بھی ٹیکس دینا ہو گا، جنہوں نے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر دیا ہم نے انھیں بھی نہ بخشا، بنیادی طور پر، اس طرح کی اسکیمیں شہداء کے اہل خانہ کو مالی فوائد فراہم کرنے کے لئے متعارف کروائی گئی تھیں، جنہوں نے قوم اور شہریوں کے لئے اپنی زندگی قربان کر دیں یا پھر وہ سینئر سٹیزن جو تنخواہ دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایک حصے کے طور پرانکم ٹیکس باقاعدگی سے ادا کرتا رہے ہیں اور جب ان کے پاس آمدنی کا باقاعدہ ذریعہ ہوتا تھا تو قوم کی ترقی میں حصہ ڈالتے تھے ٹیکس کی صورت میں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی جمع پونجی کو ایسی اسکیموں میں اس لئے لگاتے ہیں کہ بڑھاپا آسانی سے کٹ جائے۔ یہ کلاس اب اس طرح کی اسکیموں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر مکمل طور پر انحصار کرتا ہے،</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آرام دہ اور پرسکون زندگی گزارنے کے لیے اس طبقے میں مزید وسائل کی ضرورت ہے مگر ہونا تو چاہے تھا کہ ان کی بچت اسکیموں میں ٹیکس کی شرح صفر رہتی لیکن حکومت نے ان کو بھی نہ بخشا، ٹیکس لگانے سے ان اسکیموں پر منافع کے مارجن میں اضافے کے بعد اکاؤنٹ ہولڈرز کی قلیل زندگی کی خوشی ختم ہو جائے گی فیڈرل بورڈ آف ریونیوپالیسی ونگ کو انسانی بنیادوں پر اس آمرانہ پالیسی کو ختم کرنا چاہئے۔ کیا ایف بی آر مل مالکان، جاگیرداروں یا سرمایہ کاروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے ؟ کیا ایف بی آر خود اپنا کام ٹھیک کر رہا ہے، ایف بی آر جیسے ادارے کا تو ملک سے فوری خاتمہ ہونا چاہیے کیوں کہ سندھ میں 2011 میں قائم ہونے والا ایس آر بی ایف بی آر سے 1000 فیصد بہتر کارکردگی دکھا رہا ہے۔ نگراں وزیر اعظم اور کابینہ سے گزارش ہے کہ بچت اسکیموں میں غریبوں کو پہنچنے والے فائدے پر دوبارہ سوچ بچار کیا جائے۔ اور پرانے نظام میں واپس آنا چاہئے جہاں اس طرح کی آمدنی سے غربت کا خاتمہ اور ساتھ لوگوں کے وسائل میں اضافہ ہورہا تھا. اور اس آمدنی پر ٹیکس مسلط کر کے یہ چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاروں پر بہت زیادہ بوجھ ثابت ہو رہا ہے۔ موجودہ شرح ٹیکس پر 5 ملین روپے کی سرمایہ کاری پرنئی نافذ شدہ پالیسی کے تحت قابل اطلاق انکم ٹیکس 41 ہزار روپے ہو گا، جبکہ، پرانےنظام کے تحت یہ 11 ہزارروپے ہوتا تھا۔ حکومت سے گزارش ہے کہ بچت اسکیموں میں بیواؤں، سینئر سٹیزن اور شہداء کی فیملیز کی سرمایہ کاری کو تحفظ دے اور فی الفور ٹیکس کی مکمل چھوٹ کا اعلان کرے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">محمد خان ابڑو</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ جنگ</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-54066107571155715132023-09-04T02:12:00.000-07:002023-09-04T02:12:23.163-07:00آئی ایم ایف معاہدہ، ہم ہاتھ کٹوا بیٹھے<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhrRiyWoSmvjNV_ka7_pE_7tN7CpGj8-OcphrjbSu3Zn3SISllpTidUBvvE45K4Mac-8kQjejVXinn7NyRLLoIxH87HuCm8JaLUZnX-aBsg5LyF7-foWsPak-I4QJ2elGNlYQuUM169S0M-x9_M4AZJesPm17jrrjBp2MieyyIleXfHonJr_OOBBbiLKxFu/s670/Pakitan%20and%20IMF%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="395" data-original-width="670" height="236" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhrRiyWoSmvjNV_ka7_pE_7tN7CpGj8-OcphrjbSu3Zn3SISllpTidUBvvE45K4Mac-8kQjejVXinn7NyRLLoIxH87HuCm8JaLUZnX-aBsg5LyF7-foWsPak-I4QJ2elGNlYQuUM169S0M-x9_M4AZJesPm17jrrjBp2MieyyIleXfHonJr_OOBBbiLKxFu/w400-h236/Pakitan%20and%20IMF%203.jpg" width="400" /></a></div>دلچسپ کہیں افسوس ناک یا شرم ناک کہیں۔ نگران حکومت نے جس دن پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا اُسی دن عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں ڈیڑھ فیصد سے زائد تک گر گئیں۔ رواں اگست کے پہلے پندرہ دنوں میں دو مرتبہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، پہلی مرتبہ پی ڈی ایم حکومت ختم ہونے سے چند دن پہلے اور دوسرا پندرہ اگست نگران حکومت کے دور میں۔ قیمت بڑھاتے ہوئے دونوں مرتبہ صریح غلط بیانی کی گئی کہ عالمی منڈی میں خام تیل مہنگا ہو گیا ہے، جب کہ اس کے برعکس عالمی منڈی میں تیل سستا ہوا ہے۔ یہ تو ظلم کی انتہا ہے۔ شاید ہی دنیا کی کسی حکومت نے اپنی عوام سے ایسا سفید جھوٹ بولا ہو۔ عوام سے عجیب مذاق ہو رہا ہے۔ صرف پٹرول پر عوام سے 60 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ تیل کی قیمت گرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کی معیشت مشکلات کا شکار ہے جسکی وجہ سے سرمایہ کار خدشات کا شکار ہیں۔ معاشی سست روی کی وجہ سے تیل کی کھپت چین میں کم ہو گئی ہے۔ چین تیل کے بڑے خریداروں میں شامل ہے، باوجود اس کے کہ خام تیل کی پیداوار اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عوام پچھلے پانچ سالوں سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن ان کی طرف سے کبھی کوئی مؤثر احتجاج نہیں کیا گیا، چنانچہ قیمتیں بڑھانے میں حکومت بھی بے خوف ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ایک تو مہنگائی دوسری مصنوعی مہنگائی۔ دوکاندار، تاجر دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض چیزوں پر اضافی 100 روپے تک وصول کیے جا رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم خاقان عباسی کے گزشتہ کچھ عرصہ سے حیران کن بیان آ رہے ہیں، ایک طرف ن لیگ میں ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے کچھ غیر معمولی حقائق سامنے لا رہے ہیں۔ بہرحال، خاقان عباسی نے نیب کے حوالے سے ایک دلچسپ انکشاف کرتے ہوئے اپنی مثال پیش کی کہ نیب نے مجھ سے ہر سوال پوچھا لیکن ایک سوال نہیں پوچھا کہ میں ٹیکس ادا کرتا ہوں یا نہیں؟ انھوں نے واضح طور پر بتایا کہ حکمران طبقات ٹیکس ادا نہیں کرتے جب کہ وہ عوام کے خون پسینے کی کمائی سے سالانہ ہزاروں ارب روپے کی مراعات حاصل کرتے ہیں۔ ان طبقات کے ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے ہر آئے دن عوام پر نئے ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں۔ ایک طرف سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ہیں، جن کی تنخواہ سے ٹیکس پہلے ہی کاٹ لیا جاتا ہے، دوسری طرف پاکستان کے 5 فیصد جاگیردار ہیں جن کے قبضہ میں پاکستان کی 75 فیصد زرعی اراضی ہے جو اپنی آمدن کے تناسب سے کسی طور ٹیکس دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi7DiVzYjW9P-_t0H9vkSXKD-jL9UaaD-ETCCsHg0tKhaGJTIqW-NdCkY16UupkZUkT3VXIbKB6dB11Osh7-M-FKbEfYSMpLI0jV0kU8-iKeI2cNrp6dUOTG19ANTfxBVYf4wRY08Di191ao2ngPijQpaWIYG2cXmHmxsvLN1gcIfF353LJHlV-VQVwQYwI/s800/Pakitan%20and%20IMF%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="509" data-original-width="800" height="255" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi7DiVzYjW9P-_t0H9vkSXKD-jL9UaaD-ETCCsHg0tKhaGJTIqW-NdCkY16UupkZUkT3VXIbKB6dB11Osh7-M-FKbEfYSMpLI0jV0kU8-iKeI2cNrp6dUOTG19ANTfxBVYf4wRY08Di191ao2ngPijQpaWIYG2cXmHmxsvLN1gcIfF353LJHlV-VQVwQYwI/w400-h255/Pakitan%20and%20IMF%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">چنانچہ حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے اندرون بیرون ملک سے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ہمیں اپنے ہوائی اڈے جن میں لاہور ، اسلام آباد، کراچی کے ایئرپورٹ شامل ہیں۔ ہم آؤٹ سورس کرنے جا رہے ہیں یعنی یہ ہوائی اڈے عالمی بینک کے ذیلی ادارے کے کنٹرول میں چلے جائیں گے۔ یہ معاملات PIA سے بھی متعلق ہیں۔ جس کا خسارہ گزشتہ سال ستمبر تک 630 ارب روپے سے تجاوز کر گیا تھا۔ اب تو مزید ایک سال اوپر ہونے والے ہیں، سوچیے خسارہ کہاں تک پہنچ چکا ہو گا۔ ہماری معاشی صورتحال اب بالکل ویسے ہی اس شخص کے مشابہ ہے جو دیوالیہ ہونے پر اپنا قرض اور سود ادا کرنے کے لیے گھر کی چیزیں بیچ رہا ہو کیونکہ ہمارے حکمران طبقات سے لے کر عام آدمی تک ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دوکاندار چند ہزار روپے سالانہ ادا کرنے پر تیار نہیں۔ جب کہ یورپ خاص طور پر فلاحی ریاستوں میں تنخواہ اور آمدنی کا 30 سے 40 فیصد ٹیکس کی مد میں کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومتیں بے روزگاری، رہائش ، تعلیم اور صحت کی مد میں اپنے شہریوں کو بہت سہولیات دیتی ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آئی ایم ایف تو مسلسل شور مچا رہا ہے کہ مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگایا جائے اور خسارہ میں جانے والے اداروں کو پرائیویٹایز کیا جائے۔ لیکن حکمران طبقات اور اشرافیات اپنے اوپر ٹیکس لگائیں گے؟ ایسا تو پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ چنانچہ ہمیشہ کی طرح عوام کے زیر استعمال اشیاء پٹرول، ڈیزل، بجلی اور کھانے پینے وغیرہ کی اشیاء پر ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔ یہ ہے بے پناہ کمر طور مہنگائی کی اصل وجہ۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ گزشتہ پی ڈی ایم حکومت نے اندرونی قرضوں میں پی ٹی آئی کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ یہ قرضے اس اتحادی حکومت نے محض 15 ماہ کی قلیل مدت میں لیے۔ یعنی 18.5 کھرب روپے، یہ ہے مہنگائی کی دوسری وجہ۔ پاکستان ٹریڈز یونین کے صدر کہتے ہیں کہ حالت ایسی ہو گئی ہے کہ لوگ کھانے پینے کی چیزیں چرانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تاجر اور عوام مشکل میں چلے گئے ہیں۔ ایک بڑے بزنس گروپ کے چیئرمین زبیر موتی والا نے کہا ہے کہ ملکی معاشی حالات آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے اس بد ترین جگہ پہنچے ہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے، یہ معاہدہ میں درج ہے۔ جن پر ہم نے دستخط کیے ہیں۔ حکومت نے معاہدہ میں جا کر اپنے ہاتھ کٹوا لیے ہیں۔ کراچی میں 50 فیصد انڈسٹری بند ہو گئی ہے کیونکہ اس بار بجلی کا بل 52 روپے یونٹ سے زائد آیا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">زمرد نقوی </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-34492825440566841402023-08-28T04:11:00.000-07:002023-08-28T04:11:41.335-07:00عمران، اسٹیبلشمنٹ دوستی ناممکن کیوں؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"> <div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh7X9YIPdEM4KarLwqq06S4O1atltg-25IfDPlXg3ArvzCLZ5pNmBYZa4mwZJr367hZMv_RXY3z2Z5qoHyNZdienl5EJhLL-hl9bfJvDrJuOUyOMuxzY-rNpXQ_f49TOVXypD5Y8I0ZS8V-6pZolNvl6nDYpxB8Fs_MUFi1OYs4mYoxefxsNvAqLLu2INMR/s976/Imran%20Khan%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="549" data-original-width="976" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh7X9YIPdEM4KarLwqq06S4O1atltg-25IfDPlXg3ArvzCLZ5pNmBYZa4mwZJr367hZMv_RXY3z2Z5qoHyNZdienl5EJhLL-hl9bfJvDrJuOUyOMuxzY-rNpXQ_f49TOVXypD5Y8I0ZS8V-6pZolNvl6nDYpxB8Fs_MUFi1OYs4mYoxefxsNvAqLLu2INMR/w400-h225/Imran%20Khan%203.jpg" width="400" /></a></div>میرے ایک دوست تحریک انصاف کے بہت بڑے حامی ہیں لیکن ایسی اندھی تقلید کرنے والوں میں شامل نہیں جو حدیں پار کرتے ہوئے پاکستان دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حمایت پاکستان میں بہت زیادہ ہے اور اس بنا پر کیا یہ ملکی مفاد میں نہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے کم ہوں اور ملک و قوم کیلئے دونوں اپنی اپنی رنجشیں اور اختلافات بھلا دیں۔ میں نے دوست سے کہا کہ ایسا ممکن ہے لیکن اس کیلئے ایک تبدیلی عمران خان کو اپنے اندر لانا ہو گی اور ایک اہم واقعہ اسٹیبلشمنٹ کو بھلانا ہو گا لیکن یہ دونوں کام ہوتے ہوئے مجھے نظر نہیں آتے۔ میرا کہنا تھا کہ عمران خان نے پاکستان کے اندر سیاست میں نفرت پھیلائی، معاشرے کو تقسیم کر دیا اور یہی نفرت فوج کے ادارے کے خلاف بھی پیدا کر دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنے آپ کو بدل سکتے ہیں کہ جو نفرت اُن کے اندر اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ہے اُسے وہ ختم کر دیں، اُن سے بات کریں، اُن سے ہاتھ ملائیں، قومی اور سیاسی معاملات کے حل کیلئے اُن کے ساتھ بیٹھیں اور اسی طرح فوج کے بارے میں کوئی منفی بات نہ کریں بلکہ ایک بڑے رہنما کی طرح عوام کو جوڑیں اور فوج کے ادارے کے احترام کی بات کریں اور 9؍مئی کے واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے معذرت کریں۔ تاہم ایسا ممکن نہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عمران خان ایسا نہیں کریں گے اور یہ بات تحریک انصاف کے میرے دوست نے بھی تسلیم کی اور کہا کہ عمران خان کو دل بڑا کرنا چاہیے، اپنے مخالفوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھنا چاہیے اور فوج سے کسی صورت لڑنا نہیں چاہیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو دوبارہ قبول کر سکتی ہے؟ اس پر میری یہ رائے تھی کہ جس طرح گزشتہ ایک ڈیڑھ سال عمران خان نے فوج اور فوجی قیادت کو نشانہ بنایا اور جس طرح عمران خان کے بیانیہ کو لے کر تحریک انصاف کے اندر فوج کے خلاف نفرت پیدا کی گئی جس کے نتیجہ میں 9؍مئی کا واقعہ رونما ہوا، جو فوج کے ادارے پر براہ راست حملہ تھا، اب اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی ممکن نہیں کہ وہ 9؍مئی کے واقعہ کو بھول جائے۔ یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ ملک کی خاطر دونوں ماضی کو بھلا دیں لیکن میری دانست میں ایسا اب ممکن نہیں۔ یعنی نہ عمران خان بدلیں گے نہ فوج 9؍مئی کو بھلا سکتی ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiSQ4XV6qMn94-Xgv-03tBW1j-VB6iu6gNfoRBMr3GwP1kjet5py37CSIlKc4owveWDZJFudtXEsm5AwLUrXMz9muDtloB8KKjNvm_un2-9-NQAMDmMWC9f7eZlJ6WyGvE5jbe1kZyGGPMhL5yjVUQIFctXRAY2xF6gubiSWJAL5AlM5S7r74hul0iuNSmx/s5377/Imran%20Khan%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3585" data-original-width="5377" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiSQ4XV6qMn94-Xgv-03tBW1j-VB6iu6gNfoRBMr3GwP1kjet5py37CSIlKc4owveWDZJFudtXEsm5AwLUrXMz9muDtloB8KKjNvm_un2-9-NQAMDmMWC9f7eZlJ6WyGvE5jbe1kZyGGPMhL5yjVUQIFctXRAY2xF6gubiSWJAL5AlM5S7r74hul0iuNSmx/w400-h266/Imran%20Khan%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس صورت حال میں تحریک انصاف کیلئے کیا آپشن بچتے ہیں، کیوں کہ یہ تو حقیقت ہے کہ عمران خان کا ایک بڑا ووٹ بینک موجود ہے۔ اس بارے میں عمران خان کیلئے سب سے بہتر حکمت عملی یہ ہو سکتی ہے کہ وہ خود کچھ عرصہ کیلئے پیچھے ہٹ جائیں اور اپنا کوئی ایسا جانشین آگے کر دیں جو فوج مخالف تصور نہ کیا جاتا ہو اور جس کا 9؍ مئی کے واقعات سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہ ہو۔ لیکن اس کیلئے بھی عمران خان تیار نہیں اور اسی لیے وہ جیل میں موجودگی کے باوجود کسی دوسرے رہنما کو وقتی طور پر بھی پارٹی قیادت دینے کیلئے تیار نہیں۔ تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کے باوجود پارٹی کی کور کمیٹی ایسے اقدامات کرنے سے بھی ہچکچا رہی ہے جو فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان فاصلہ کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اب گزشتہ روز بٹگرام واقعہ پر تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں کا سوشل میڈیا پر ردعمل ہی دیکھ لیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">نجانے تحریک انصاف کے اندر اپنی ہی فوج کے خلاف اتنی نفرت کہاں سے بھر دی گئی کہ ریسکیو آپریشن میں فوج کے کردار کو ماننےکیلئے تیار نہیں تھے بلکہ الٹا فوج کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا۔ اس موقع پر تحریک انصاف کی قیادت کو بولنا چاہیے تھا، اپنے ٹویٹس، بیانات کے ذریعے فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو رد کرنا چاہیے تھا لیکن میں نے ماسوائے تحریک انصاف کے سابق ایم این اے علی محمد خان کے کسی دوسرے رہنما کی طرف سے کوئی ذمہ دارانہ بیان نہیں دیکھا۔ علی نے فوج، ریسکیو سروس، لوکل انتظامیہ اور مقامی افراد سب کی کوششوں کی تعریف کی۔ تحریک انصاف اگر فوج مخالف بیانیہ کو اپنے ووٹروں، سپوٹروں کے ذہنوں سے نہیں نکالتی تو پھر یہ خواہش رکھنا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اُن کے ساتھ تعلقات بہتر ہوجائیںگے، ایک خواب ہو سکتا ہے، حقیقت نہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">انصار عباسی</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ جنگ</h2><p> </p>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-55855715535408693152023-08-20T23:46:00.000-07:002023-08-20T23:46:21.109-07:00 اور پھر راجہ ریاض نے پوشٹر پاڑ دیا ! وسعت اللہ خان<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiXdkfZxsbKf5cFnB7QGHDLco7FLLFV9g2EmFgqbzThIafMK9UXZzlE_RnkcOSf5kjkkpmp0V5rDw4nHY4W6F6EBzHV0wZ08yicpHKSfnG-zJ1UaBnOtHr4oKnovF3GeeNhCQPQZqQYjNo8qcKT17Mwuc53TkUO8miOBT906MvaIFkWcpJ8ML0ZGlVRUnZt/s800/Raja%20Riaz%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="480" data-original-width="800" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiXdkfZxsbKf5cFnB7QGHDLco7FLLFV9g2EmFgqbzThIafMK9UXZzlE_RnkcOSf5kjkkpmp0V5rDw4nHY4W6F6EBzHV0wZ08yicpHKSfnG-zJ1UaBnOtHr4oKnovF3GeeNhCQPQZqQYjNo8qcKT17Mwuc53TkUO8miOBT906MvaIFkWcpJ8ML0ZGlVRUnZt/w400-h240/Raja%20Riaz%203.jpg" width="400" /></a></div>کہا تھا نا کہ قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض کو ہلکا نہ لینا۔ کہا تھا نا کہ ان کی سیدھ پن سے لبریز گفتگو سے کوئی غلط نتیجہ اخذ کر کے ان پر فیصل آباد کی زندہ جگت کی پھبتی نہ کسنا۔ کہا تھا نا کہ راجہ صاحب کے ساندل باری لہجے کا مذاق نہ اڑایا جائے کہ ’میرا دل کرتا ہے کہ اسمبلی تلیل ہونے کے بعد پوشٹر پاڑ کے بارلے ملخ چلا جاؤں۔‘ اگرچہ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا نام ان کی پارٹی کی تجویز کردہ فہرست میں نہیں تھا۔ خود نواز شریف اور شہباز شریف کے بھی وہم و گمان میں یہ نام نہ تھا۔ حکمران اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمان کے زہن میں تو خیر یہ نام آنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ گمان ہے کہ خود راجہ ریاض کی بھی شاید ہی سینیٹر انوار الحق کاکڑ سے زندگی میں سوائے پارلیمانی علیک سلیک کبھی جم کے کوئی ملاقات ہوئی ہو۔ خود کاکڑ صاحب یا ان کی باپ ( بلوچستان عوامی پارٹی) کے کسی اعلیٰ عہدیدار کو بھی 48 گھنٹے پہلے تک شاید اندازہ نہ ہو کہ فیصل آباد کا راجہ قلعہ سیف اللہ کے کاکڑ کے لیے اتنا اکڑ جائے گا کہ سارے ’پوشٹر پاڑ‘ کے پھینک دے گا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ راجہ ریاض انوار الحق کاکڑ کے نام پر کیوں اڑ گئے؟ یہ سوال بھی بے معنی ہے کہ کاکڑ کا نام خود راجہ صاحب کے ذاتی ذہن کی پیداوار ہے یا انھوں نے جمعہ اور ہفتے کو کانوں میں مسلسل ہینڈز فری لگائے رکھا یا پھر کوئی واٹس ایپ موصول ہوا کہ بس ایک ہی نام پر جمے رہو۔ ہم ہیں تو کیا غم ۔ اور یہ مشورہ اتنا فولادی تھا کہ راجہ صاحب سے غالباً پہلی اور آخری بار صادق سنجرانی، احسن اقبال حتیٰ کہ اسحاق ڈار کی بالمشافہ ملاقات بھی راجہ ریاض کا دل موم نہ کر سکی۔ راجہ صاحب میں ٹارزن جیسی طاقت کہاں سے آئی؟ وزیرِ اعظم اور حکمران اتحاد نے کیسے اپنی اپنی ناموں کی پرچیاں پھاڑ کے راجہ صاحب کے تجویز کردہ نام پر ہاتھ کھڑے کر دئیے؟ اتنا برق رفتار حسنِ اتفاق تو جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے بھی نہ دیکھا گیا تھا۔<br />کوئی تو ہے جو نظامِ بستی چلا رہا ہے۔۔۔<br />مگر ایک منٹ!<br />یہ نہ تو کوئی انہونا سرپرائز ہے اور نہ ہی آپ کہہ سکتے ہیں کہ پہلی بار اس طرح سے کوئی اِکا پھینک کے تاش کی بازی پلٹی گئی ہو۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjt_wnqAcVnENNHHjP9tHkcehKzhmB-fIDVdWSd3nWZXuO0DtJToPa_dJV5pskRq2JP0Vg7Ze8CFQxqe7-L_O4MpdBOrKIxqvdv0H11l9xasPVxnXF3DpkccztzOvko0C55MkFxjpnxX127lrG5dU48TLdskGC7KFMvCyM9OjTUvKIptNhxCsHXhJCuIC9-/s752/Raja%20Riaz%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="423" data-original-width="752" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjt_wnqAcVnENNHHjP9tHkcehKzhmB-fIDVdWSd3nWZXuO0DtJToPa_dJV5pskRq2JP0Vg7Ze8CFQxqe7-L_O4MpdBOrKIxqvdv0H11l9xasPVxnXF3DpkccztzOvko0C55MkFxjpnxX127lrG5dU48TLdskGC7KFMvCyM9OjTUvKIptNhxCsHXhJCuIC9-/w400-h225/Raja%20Riaz%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یاد نہیں کہ سینیٹ میں نون اور پی پی کی مجموعی اکثریت کے باوجود ایک آزاد، غیر سیاسی، غیر معروف امیدوار صادق سنجرانی نے کس طرح مارچ 2018 میں گرم و سرد چشیدہ راجہ ظفر الحق کو شکست دے کے سب کو ششدر کر دیا تھا۔ اور پھر انہی سنجرانی صاحب نے ایک برس بعد تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنایا جبکہ سینیٹ میں عمران خان کی مخالف جماعتیں بظاہر اکثریت میں تھیں اور سنجرانی کے ہی ہم صوبہ بزنجو خاندان کے وارث میر حاصل خان کی جیت عددی دوربین سے لگ بھگ یقینی نظر آ رہی تھی۔ اور اسی سنجرانی نے 2021 میں چیئرمین شپ کی دوڑ میں یوسف رضا گیلانی کو شکست دے کے تیسری بار چمتکار دکھایا۔ تب سے سنجرانی کا شمار گنے چنے اہم سیاسی کھلاڑیوں کی صف میں ہونے لگا۔ جو حاسد طعنہ دے رہے ہیں کہ انوار الحق کاکڑ، صادق سنجرانی کی کامیاب ہائبرڈ پیوند کاری کا ٹو پوائنٹ او ماڈل ہیں، ٹی وی کے جو اسکرینچی ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں کہ جواں سال انوار الحق کا مختصر سیاسی شجرہ مسلسل اسٹیبلشمنٹ نواز ہے اور وہ دراصل ایک فرنٹ کمپنی ہیں جنھیں آگے رکھ کے ایک من پسند انتخابی ڈھانچہ بنا کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جائیں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ان اسکرینچیوں کو کم ازکم یہ زیب نہیں دیتا کہ 2018 کے بعد سے بالعموم اور حالیہ ختم ہونے والی قومی اسمبلی اور نہ ختم ہونے والی سینیٹ میں بالخصوص جس طرح آخری چار اوورز میں قوانین کی منظوری کی ریکارڈ توڑ سنچری بنائی گئی اس کے بعد کوئی کہہ سکے کہ کون اسٹیبلشمنٹ کا کاسہ لیس ہے اور کون اس اسمبلی میں لینن، ہوچی منہہ، چی گویرا یا کم ازکم کوئی ولی خان، مفتی محمود یا نوابزادہ نصراللہ خان تھا۔ یہ اسمبلی تاریخ میں کس طرح یاد رکھی جائے گی؟ کسی کو شک ہو تو سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی آخری پارلیمانی تقریر یا پھر سینیٹ میں سابق چیئرمین رضا ربانی کا پچھلا خطاب سن لے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">وسعت اللہ خان</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ بی بی سی اردو</h2><br />KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-53618012255307953162023-06-19T04:22:00.001-07:002023-06-19T04:22:25.124-07:00عمران سمیت سب رہنماؤں کے لئے دلی دُعا<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhO4x4MKo3r-YxHhBrV0vRfrcrUvoUH0Ppuvk924DKkhz-31pRV7DsQll8CTs8HWgQsvSes6gV7ktVmpOZPEkuhFxoc_gqkmRnPw3XmheiPrkER9iA0o3Ks3ULghdBqAyOvX0h5usWSsCQslpSxXuw84DUv4r--ACJN5hb0AlvzYJQdq5apXpgC-v63Lg/s5500/Imran%20Khan%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3651" data-original-width="5500" height="265" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhO4x4MKo3r-YxHhBrV0vRfrcrUvoUH0Ppuvk924DKkhz-31pRV7DsQll8CTs8HWgQsvSes6gV7ktVmpOZPEkuhFxoc_gqkmRnPw3XmheiPrkER9iA0o3Ks3ULghdBqAyOvX0h5usWSsCQslpSxXuw84DUv4r--ACJN5hb0AlvzYJQdq5apXpgC-v63Lg/w400-h265/Imran%20Khan%203.jpg" width="400" /></a></div>پہلے تو میں اپنا محاسبہ کرتا ہوں۔ اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ میں اُردو کے سب سے بڑے اخبار میں اپنے دل کی باتیں کر سکوں۔ دنیا بھر میں لاکھوں پڑھنے والے پاکستان کے کونے کونے میں میرے الفاظ کے مطالعے کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالتے ہیں۔ کیا میں ان کے علم میں کوئی اضافہ کرتا ہوں۔ سات دہائیوں سے مجھے خدائے بزرگ برتر نے حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھنے ان کے ساتھ سفر کرنے کی سہولتیں دی ہیں۔ میں نے ان کی حاشیہ برداری کی ہے یا ان کے سامنے کلمۂ حق کہا ہے۔ تاریخ میرے کان میں کہہ رہی ہے۔ آج 14 مئی ہے۔ اگر اس سر زمین میں آئین کی پاسداری ہو رہی ہوتی۔ عدالتِ عظمیٰ کے قوانین کو حکمران تسلیم کر رہے ہوتے تو آج پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا دن تھا۔ انتخابات ٹالنے کے لئےانتخابات کروانے والوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ کہا گیا کہ 14 مئی کو سیکورٹی نہیں دے سکتے کیونکہ فورسز سرحدوں پر مصروف ہیں۔ مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ فورسز 14 مئی کو پنجاب میں موجود ہیں۔ الیکشن کے انعقاد کے مثبت اقدام کے لئے نہیں۔ بلکہ الیکشن پر اصرار کرنے والوں کی تادیب کے لئے۔ 9 مئی کو انٹر سروسز پبلک ریلیشنز نے یوم سیاہ قرار دیا ہے۔ 70 سال سے اوپر کے میرے ہم عصروں نے کتنے سیاہ دن دیکھے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">16 دسمبر 1971 سب کیلئے یوم سیاہ۔ پھر کسی کیلئے 4 اپریل 1979۔ کسی کیلئے 17 اگست 1988۔ کسی کیلئے 12 اکتوبر 1999۔ کسی کیلئے 26 اگست 2006۔ کسی کیلئے 27 دسمبر2007۔ جن سر زمینوں میں آئین کو بار بار سرد خانے میں ڈالا جائے۔ جہاں آمروں کے منہ سے نکلے الفاظ ہی قانون ہوں۔ جہاں اپنے اپنے علاقوں میں سرداروں۔ جاگیرداروں۔ مافیا چیفوں کا راج ہو۔ وہاں مختلف خاندانوں کے لئے مختلف دن سیاہ ہو جاتے ہیں۔ آج اتوار ہے۔ میں نادم ہوں کہ ہمارے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کو ایسے ایسے بھیانک مناظر دیکھنا پڑ رہے ہیں جو وہ تاریخ کے اوراق میں چنگیز۔ ہلاکوخان اور دوسرے سفاک جابروں کے دَور میں پڑھتے رہے ہیں۔ میں تو اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔ مگر جن کے حکم پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہ خبر نہیں کہ اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوئوں دامادوں کے سامنے سر بلند کر کے کھڑے ہوتے ہیں یا سر جھکا کے۔ عورتوں کو بال پکڑ کر گھسیٹا جارہا ہے۔ بزرگوں کو ڈنڈا ڈولی کیا جارہا ہے۔ ہانکا لگا کر شکار کیا جارہا ہے۔ ایمبولینسوں کو جلایا جا رہا ہے ۔ سرکاری عمارتوں میں گھس کر آگ لگائی جارہی ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjG7UroPWU_riXWm3trMAeWKBQz2jTBoqwROuCE8zAO2wQCVfsSOQpB5Af0YxXvNF9KQ1QQ94qb9VKvXr0mwDSCoBtmliW2DyLaWr2fE5kt3yFES-ukvgphli3uptoTuSSByL6CaTE9iQgkJj3IshXPrsaYkaF1Pt_2yejFzPXez3xXRfE_nu_cPV0nug/s1000/Imran%20Khan%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="600" data-original-width="1000" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjG7UroPWU_riXWm3trMAeWKBQz2jTBoqwROuCE8zAO2wQCVfsSOQpB5Af0YxXvNF9KQ1QQ94qb9VKvXr0mwDSCoBtmliW2DyLaWr2fE5kt3yFES-ukvgphli3uptoTuSSByL6CaTE9iQgkJj3IshXPrsaYkaF1Pt_2yejFzPXez3xXRfE_nu_cPV0nug/w400-h240/Imran%20Khan%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بہت ہی حساس رہائش گاہیں اور ہیڈ کوارٹرز کسی محافظ کے بغیر چھوڑے جارہے ہیں۔ ہجوم ان میں بلاک روک ٹوک داخل ہو رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے پولیس حکومت کے سیاسی مخالفین کی رہائش گاہوں میں گھس کر بلوائیوں کی طرح شکست وریخت کر رہی ہے۔ قوم ۔ میڈیا تقسیم ہو چکے ہیں۔ من حیث القوم۔ اس افراتفری کو نہیں دیکھا جارہا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے۔ حکومت وقت جو معیشت کے سامنے بازی ہار چکی ہے۔ جو افراط زر کے آگے ناکہ نہیں لگا سکی۔ جو اپنے قائد اعظم کی تصویر والی کرنسی کو کافروں کی تصویروں والی کرنسی کے سامنے عاجز ہونے سے نہیں روک سکی۔ وہ ملک کے استحکام کے لئے کوئی تدبیر نہیں کر سکی۔ جس کے وزراء کو ایسے ہنگامی حالات میں میڈیا کے کیمروں کے سامنے بیٹھنے۔ عدلیہ کو بے نقط سنانے اور اپنے سیاسی مخالف کو فتنہ ۔غیر ضروری عنصر۔ غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ کہنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ سوشل میڈیا پر قیامتیں برپا ہیں۔ تاریخ کے شرمناک مناظر دکھائے جارہے ہیں۔ ملک کو مزید جلائو گھیرائو۔ نوجوانوں کی ہلاکتوں سے بچانے کے لئے سب سے بڑی عدالت کو اسی قیدی کو روبرو بلانا پڑتا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">جس کی گرفتاری پر ادارے۔ حکمراں بہت مطمئن تھے۔ قاضی القضاۃ کو کہنا پڑا کہ آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اس ایک جملے کے بہت معانی ہیں۔ بہت سے اداروں اور بہت سے لوگوں کے لئے اس ایک جملے میں بہت اشارے اور بہت انتباہ بھی ہیں۔ آگے کیا ہونا ہے۔ ستارے تو بہت خوفناک پیشنگوئیاں کررہے ہیں۔ میں تو اللہ تعالیٰ سے اس شخصیت کے لئے دعائیں مانگوں گا کہ جس کو سامنے لا کر احتجاج کرنے والوں سے اپیل کروانا پڑی کہ وہ پُر امن رہیں۔ املاک کو تباہ نہ کریں۔ میں پورے خشوع و خضوع سے قادرمطلق سے التجا کر رہا ہوں کہ اگر ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر پہنچ گئے ہیں جہاں ملک میں امن۔ استحکام نہ صدر مملکت کے ہاتھ میں ہے۔ نہ وزیر اعظم کے۔ نہ کسی وزیر اعلیٰ کے بلکہ ایک اپوزیشن لیڈر کے بس میں ہے۔ جس کے خلاف ایک سو سے کہیں زیادہ مقدمات مختلف شہروں۔ مختلف تعزیرات کے تحت دائر کر دیے گئے ہیں۔ تو ہم اپنے پروردگار اپنے معبود۔ اپنے قدیر۔ کبیر سے گڑ گڑا کر درخواست کریں کہ اے سارے جہانوں کے مالک۔ عمران خان کو تدبر۔ بصیرت اور وژن عطا کر کہ وہ قوم کو استحکام کی منزل کی طرف لے جائے۔ اسے اس ادراک کی تقویت دے کہ وہ مستقبل کے لئے صراط مستقیم کا انتخاب کر سکے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس عظیم مملکت میں معیشت کے سنبھلنے میں اپنی سیاسی طاقت سے کام لے سکے۔ اس وقت اس خطّے میں بڑی سازشیں ہو رہی ہیں۔ منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ بڑی طاقتوں کی بھی کوششیں ہیں کہ پاکستانی آپس میں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہیں۔ صوبوں کے درمیان کشمکش رہے۔ سوشل میڈیا پر ان سازشوں کے مظاہر بھی درج ہو رہے ہیں۔ لسانی۔ نسلی۔ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کی جارہی ہے تو ہم اس الرحمن الرحیم سے التماس کریں کہ اب جب اس ایک شخص کی آواز پر نوجوان جگہ جگہ شہر شہرسڑکوں پر نکل آتے ہیں تو اس کے ذہن کو ایسی تقویت دے ۔ ایسی روشنی دے کہ وہ اس عظیم مملکت کے بانی اور بر صغیر کے بے مثال رہبر قائد اعظم کے افکار پر مبنی معاشرے کے قیام کے لئے نوجوانوں کو تیار کرے۔ ملک میں صرف احتجاج کے لئے اپیل نہ کرے۔ بلکہ آئندہ دس پندرہ برس کا ایک لائحہ عمل دے۔ اس ایک سال میں خواب بہت بکھر چکے۔ آرزوئیں خاک ہو چکیں۔ معیشت ریزہ ریزہ ہو چکی۔ اقوام عالم میں پاکستان بے وقعت ہو چکا ہے۔ اے الملک۔ اے الرافع۔ اے الغنی۔ اے الوارث۔ الباقی۔ یہ 22 کروڑ تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمارے منصفوں کو۔ سالاروں کو۔ حکمرانوں کو یہ ہدایت دے کہ وہ صرف ایسی راہ پر چلیں۔ جس پر تیری نعمتیں نازل ہوتی ہیں۔ ان راہوں کو چھوڑ دیں۔ جس پر تیرا غضب اترتا ہے۔ ہمارے سب رہنمائوں بالخصوص عمران خان کو یہ استطاعت دے کہ وہ صرف ملک کے لئے سوچیں۔ اسے بحرانوں سے نکالیں۔ آمین۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">محمود شام</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ جنگ</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-86441107243668061862023-06-11T04:46:00.000-07:002023-06-11T04:46:13.236-07:00اس گھر کو آگ لگ گئی <h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEibJIhdzv0q3vD07G7XhN0NFT1AY6-OOQbZkSMty1fpX0KOsRyvf-_TfGnbo-jyEZmE1OpafpUrx_OuLlYHGzP1G13YztLQGAndpTQayiIx1zPDdv3G4Y5LW3xXZ6pzTd5Z7tFs_lAAHTHoD0-nAfff1IU7bfl5aU_TilqRsQyfbLAntKeGleBlyThi0Q/s1600/PTI%20Protest%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="900" data-original-width="1600" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEibJIhdzv0q3vD07G7XhN0NFT1AY6-OOQbZkSMty1fpX0KOsRyvf-_TfGnbo-jyEZmE1OpafpUrx_OuLlYHGzP1G13YztLQGAndpTQayiIx1zPDdv3G4Y5LW3xXZ6pzTd5Z7tFs_lAAHTHoD0-nAfff1IU7bfl5aU_TilqRsQyfbLAntKeGleBlyThi0Q/w400-h225/PTI%20Protest%204.jpg" width="400" /></a></div>یہ آگ تو برسوں سے لگی ہوئی ہے صرف شعلے اب نظر آئے ہیں۔ تین صوبے تو یہ تپش بہت عرصہ سے محسوس کر رہے تھے کچھ رہنمائوں نے بار بار خبردار بھی کیا تھا، چاہے وہ خان عبدالولی خان ہوں یا مولانا شاہ احمد نورانی۔ ’تختہ دار‘ پر جانے سے پہلے تو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں آنے والے وقت کے بارے میں بہت کچھ بتا دیا تھا۔ آج ساری لڑائی کا مرکز ’پنجاب‘ ہے اور جھگڑا بھی بظاہر ’تخت پنجاب‘ کا ہے دیکھیں ’انجام گلستاں کیا ہو گا‘۔ اس بار آخر ایسا کیا مختلف ہو رہا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پہلے بھی سیاست بے ربط ہی تھی اب بھی کچھ مختلف نہیں، پہلے بھی ملک میں ’سنسرشپ‘ تھی اب بھی ’زباں بندی‘ ہے۔ پہلے بھی سیاسی کارکن، صحافی غائب ہوتے تھے اب بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، پہلے بھی ماورائے عدالت قتل ہوتے تھے اب بھی ہوتے ہیں۔ جو کچھ الگ ہو رہا ہے وہ کچھ یوں ہے: پہلے وزیراعظم کو گھر بھیجا جاتا تھا تو ’سہولت کار‘ عدلیہ اس عمل کو درست قرار دے دیتی، ملک میں آئین پامال ہوتا تو ’نظریہ ضرورت‘ آ جاتا، ایک وزیراعظم پھانسی چڑھا تو ایک نے ’جوڈیشل مرڈر‘ کیا دوسرے نے عمل کیا۔ دوتہائی اکثریت والے وزیراعظم کو چند افسران نے وزیراعظم ہائوس سے ’کان‘ پکڑ کر باہر نکالا تو اس اقدام کو درست قرار دیا اور کسی نے اف تک نہ کی۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آج مختلف یہ ہے کہ عدلیہ منقسم ہی سہی بظاہر وقت کی اپوزیشن کے ساتھ کھڑی اور سابق وزیراعظم کو وہ ریلیف مل رہا ہے جو مانگا بھی نہیں۔ ’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ گڈلک، بیسٹ آف لک کے ساتھ زمان پارک پہنچا دیا گیا۔ مگر یہ بات تاریخی طور پر جاننا بہت ضروری ہے کہ پہلے کسی وزیراعظم پر سو کے قریب مقدمات بھی نہیں بنائے گئے۔ جو کچھ پچھلے ہفتے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا، کم و بیش ویسا ہی عمل 1992 میں پی پی پی کے رہنما مسرور احسن کے ساتھ سندھ ہائیکورٹ میں ہوا تھا جب چیف جسٹس ناصر اسلم زاہد تھے۔ مگر جو قید مسرور نے کاٹی اس کے بارے میں صرف عمران جان ہی لیں تو انہیں اندازہ ہو گا کہ قید و بند کیا ہوتی ہے۔ آج مختلف یہ ہے کہ بادی النظر میں عدلیہ عمران کو ریلیف دینے میں لگی ہے اور اسٹیبلشمنٹ 13 جماعتی حکومتی اتحاد کے ساتھ ہے مگر آگ ہے کہ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ یہ بھی پہلے نہیں دیکھنے کو ملا کہ ایک وزیراعظم کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا ہو اور وہ پارلیمنٹ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ہو۔ اب وہ لڑائی کیسی لڑ رہا ہے کامیاب ہو گا یا ناکام اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں مگر شاید عدلیہ سے ایسا ریلیف نہ ملتا تو اس کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔ رہ گئی بات اس کے ’لاڈلے‘ ہونے کی تو یہاں تو لاڈلوں‘ کی فوج ظفر موج ہے۔ جو لاڈلا نہیں رہا وہ دوبارہ بننا چاہتا ہے مگر کوئی بنانے کو تیار نہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgXadbwVAoWbVl8LYZqlHre6nt3G7LDhWB61eAvM9XA6Bsu52nHTaZetI5iPISukZZ6usRlSVqfjgRFxJ5vjEmQDzS-ijCHOTr77BUj6VXWmBy0CENMkOyDefUatlqZAy069QsSH2HQhyNdAJ1nkvZWxyLWzuQKAPdh4Q7Hd5nmNxmOEjUZeiVWFpg2YQ/s750/PTI%20Protest%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="500" data-original-width="750" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgXadbwVAoWbVl8LYZqlHre6nt3G7LDhWB61eAvM9XA6Bsu52nHTaZetI5iPISukZZ6usRlSVqfjgRFxJ5vjEmQDzS-ijCHOTr77BUj6VXWmBy0CENMkOyDefUatlqZAy069QsSH2HQhyNdAJ1nkvZWxyLWzuQKAPdh4Q7Hd5nmNxmOEjUZeiVWFpg2YQ/w400-h266/PTI%20Protest%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بھٹو سے لے کر عمران خان تک زیادہ تر بڑے سیاست دان گیٹ نمبر 4 کی پیداوار ہیں مگر شاید یہ بات اس لئے بھی کی جاتی ہے کہ بھٹو کا سیاسی سفر ایوب خان سے شروع ہوا۔ اس نے اس کا آغاز اسکندر مرزا کے زمانے میں ایوان صدر کی لائبریری سے کیا اور بقول قدرت اللہ شہاب ’’چند روز میں پریزیڈینٹ ہائوس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کر رکھ دیا۔‘‘ پھر تو وہ کوئے یار سے نکلا اور سوئے دار تک گیا۔ میاں صاحب اور عمران خان کی تخلیق میں قدر ِمشترک یہ ہے کہ دونوں کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جبکہ بھٹو نے اپنی عملی سیاست کا آغاز اسکندر مرزا کی کابینہ اور پھر ایوب خان کی کابینہ سے پہلے ہی کر دیا تھا جب وہ 1954ء میں لاڑکانہ آبادگار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔ بےنظیر بھٹو نے تو اپنی سیاست کا آغاز برطانیہ میں زمانہ طالب علمی سے کیا اور مارشل لا کیخلاف جدوجہد سے سیاست آگے بڑھائی۔ ہماری سیاست کو برا کہنے، جمہوریت اور سیاست دانوں کو گالی تک دینے والوں کی کوئی کمی نہیں مگر یہ سارے دانشور، تجزیہ کار اور سیاسی دوست صرف ’تخت پنجاب‘ کی سیاست کا جائزہ لے لیں تو بہت سی باتیں سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ویسے تو یہ اصطلاح ’تخت لاہور‘ کی شریفوں کے دور میں آئی مگر اس کی اصل کہانی جاننے کیلئے سابق مشرقی پاکستان کی سیاست، ون یونٹ اور پھر سانحہ مشرقی پاکستان کو سمجھنا ضروری ہے۔ میں نے کہا نا کہ آگ تو بہت پہلے سے لگی ہوئی ہے اب اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ اب پنجاب اس کی لپیٹ میں ہے۔ پی پی پی کو چار بار تقسیم کیا گیا کامیابی نہ ہوئی تو شریفوں کو تخلیق کیا گیا۔ انہوں نے آنکھیں دکھائیں تو عمران خان کی تخلیق ہوئی۔ پہلے جنرل ضیاء نے سیاست میں آنے کا مشورہ دیا، دعوت دی پھر جنرل حمید گل سے لے کر دیگر جرنیلوں نے حمایت کی زیادہ تر کا مسئلہ عمران کی محبت نہیں شریفوں اور بھٹو سے نفرت تھی۔ اور یہ سارے ایک دوسرے سے لڑتے رہے اور آخر کار جنرل قمر جاوید باجوہ نے 2018 میں اقتدار دلوانے میں مدد کی اور پھر جب وہ ناراض ہوئے تو بہت سے نئے پرانے لاڈلوں کو جمع کر کے اس لاڈلے سے نجات حاصل کی بس 13 لاڈلے اور تخلیق کار ایک غلطی کر گئے کہ ایک تیزی سے غیر مقبول ہوتے وزیراعظم کو مقبول ترین بنا دیا۔ دوسری غلطی یہ کر گئے کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے کہ جن کی کوئی کی ضد بن جائے تو وہاں وہ نقصانات اور انجام کی بھی پروا نہیں کرتے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا، اب بات بہت آگے تک جا چکی ہے۔ پچھلے چند دنوں اور ہفتوں میں جتنے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن گرفتار ہوئے، وہ تین چار سال میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ جو کچھ 9 مئی کو کراچی تا خیبر ہوا وہ بظاہر اتفاقیہ یا قدرتی ردعمل نہیں تھا ایک خاص منصوبہ بندی نظر آرہی تھی۔ عمران کی لڑائی حکومت سے نہیں کہ وہ اس حکومت کو کچھ سمجھتا ہی نہیں اس کی براہ راست لڑائی اور ٹارگٹ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ ماضی میں جو لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ رہے ہیں وہ آج ’اگر مگر‘ کا شکار ہیں۔ یہ ایک غیر معمولی سیاسی صورت حال ہے اور لگتا ہے انجام بھی غیر معمولی ہو گا۔ جب تک شعلے چھوٹے صوبوں تک رہے کسی کو اس کی تپش کا احساس تک نہ ہوا اب یہ آگ بڑے صوبے تک آگئی ہے۔ ’تخت پنجاب‘ کی لڑائی تختہ تک آن پہنچی ہے۔ ولی خان نے کہا تھا کہ ہم جو کھیل افغانستان میں کھیل رہے ہیں اس کا اختتام ایسا نہ ہو کہ اسلام آباد میں ہو۔ مولانا نورانی نے 1982ء میں کراچی پریس کلب میں کہا تھا ’’اگر یہ باربار کی مداخلت ختم نہ ہوئی تو اس آگ کو کوئی پھیلنے سےکوئی نہیں روک سکتا۔‘‘</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مظہر عباس <br /></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ جنگ</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-32923166309679038382023-06-05T22:57:00.001-07:002023-06-05T22:57:41.012-07:00عمران خان کے گھبرانے کا وقت <h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhewvuRLbn3RkDj-LXkLWGW8u2iT8zp1IYfnZMYXi4s21_qx8Fa1hDIVVf34ElJBBEL6qEesoCn4umTmT19aLNKXZqMRC06--QFl-zldKzmYFkHXpEytdF3fcryXmkNHBUqHjuGV5AXyTqKa7pS-XAxQoA87pH9E3CoApmn7iHXo7txNE8MMOqdefmuCw/s5500/Imran%20Khan%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="3664" data-original-width="5500" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhewvuRLbn3RkDj-LXkLWGW8u2iT8zp1IYfnZMYXi4s21_qx8Fa1hDIVVf34ElJBBEL6qEesoCn4umTmT19aLNKXZqMRC06--QFl-zldKzmYFkHXpEytdF3fcryXmkNHBUqHjuGV5AXyTqKa7pS-XAxQoA87pH9E3CoApmn7iHXo7txNE8MMOqdefmuCw/w400-h266/Imran%20Khan%203.jpg" width="400" /></a></div>جو صورتحال نظر آ رہی ہے اُس کے مطابق اگر عمران خان مائنس اور تحریک انصاف مکمل طور پر قابو میں آ گئی تو انتخابات اکتوبر میں ہو سکتے ہیں ورنہ ممکنہ طور پر الیکشن آگے جا سکتے ہیں۔ آئندہ الیکشن کون جیتتا ہے یہ اتنا اہم نہیں لیکن اصل توجہ اس نکتہ پر ہو گی کہ عمران خان انتخابات سے ہر حال میں باہر ہوں اور عمران خان کی حمایت یافتہ تحریک انصاف انتخابات جیتنے کے قابل نہ ہو۔ عمران خان اور اُن کے چند ایک ساتھیوں کو شاید ابھی تک ادراک نہیں کہ 9 مئی کو کیا ہوا، کتنا خطرناک ہوا اور یہ پاک فوج پر کتنا بڑا حملہ تھا، جسے تحریک انصاف تو بھلانا چاہے گی لیکن فوج اُسے کبھی نہیں بھلا سکتی۔ دو روز قبل تحریک انصاف کے رہنما حماد اظہر نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ تحریک انصاف نے مذاکراتی ٹیم پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ بات چیت کیلئے نہیں بنائی بلکہ اس کا مقصد اصل قوتوں یعنی فوج سے مذاکرات کرنا ہے۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ ان حالات میں اور 9 مئی کے واقعات کے بعد بھی تحریک انصاف یہ امید لگائے ہوئے ہے کہ فوج عمران خان یا اُن کی مذاکراتی ٹیم سے بات کر سکتی ہے۔ تحریک انصاف کو 9 مئی سے پہلے بھی فوج سے مذاکرات کا رستہ نہیں مل رہا تھا اب تو ایسا قطعی ممکن نظر نہیں آتا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjSiIrQ5Pg1d9W8NTmnU1CR36ubuo3lvyIPAAj7_6owv1wVZlKOQgGyLgDIwbH4YDaGD2sq4XKb8-J5WBKvevFjnUuh9aM8RTojJe1u6QTSEM9xSadWI3cOfnweGEZwWJzk6-HBtQvLaBhP0Dm_w7RvfsPnsjpnIChhI6zfAMK7hiIshUyfTxuh2tDOdQ/s670/Imran%20Khan%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="395" data-original-width="670" height="236" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjSiIrQ5Pg1d9W8NTmnU1CR36ubuo3lvyIPAAj7_6owv1wVZlKOQgGyLgDIwbH4YDaGD2sq4XKb8-J5WBKvevFjnUuh9aM8RTojJe1u6QTSEM9xSadWI3cOfnweGEZwWJzk6-HBtQvLaBhP0Dm_w7RvfsPnsjpnIChhI6zfAMK7hiIshUyfTxuh2tDOdQ/w400-h236/Imran%20Khan%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عمران خان تو پہلے ہی قابل اعتبار نہیں رہے تھے، اب تو وہ ناقابل قبول ہو چکے ہیں۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ پہلے سے زیادہ مقبول ہو گئے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اُس مقبولیت کا کیا فائدہ جو مقتدر حلقوں کو قبول ہی نہ ہو۔ سب جانتے ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف سے مذاکرات کا مطلب 9 مئی کے واقعات کو شہ دینے کے برابر ہو گا۔ کیا پاکستان دوبارہ 9 مئی کا دہرایا جانا برداشت کر سکتا ہے۔؟ جو کچھ 9 مئی کو ہوا اگر وہ کامیاب ہو جاتا تو اس ملک میں خانہ جنگی ہو جاتی۔ اسی لئے ریاست کی طر ف سے یہ پیغام واضح ہے کہ نہ تو 9 مئی کے واقعات میں شامل افراد اور منصوبہ سازوں وغیرہ کو چھوڑا جائے گا اور نہ ہی عمران خان کی سیاست کواوپن فیلڈ دیا جا ئے گا۔ اسی وجہ سے تحریک انصاف کو شدید توڑ پھوڑ کا سامنا ہے۔ اس صورت حال سے عمران خان یقیناً پریشان ہوں گے۔ یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ اُن کو شاید اس بات کا بھی پچھتاوا ہے کہ اُنہوں نےاپنی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج مخالف بیانیہ کیوں بنایا۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کے فوج مخالف بیانیہ کے پیچھے تحریک انصاف کے پانچ رہنمائوں کا کافی ہاتھ تھا اور وہ پانچوں گزشتہ ماہ تحریک انصاف کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن جتنا میں عمران خان کو جانتا ہوں وہ اب بھی فوج مخالف بیانیہ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کبھی خاموشی اختیار کر سکتے ہیں، کبھی نام لئے بغیر بات کریں گے لیکن اُن کے قریب سے قریب ترین بھی کوئی فرد یہ گارنٹی نہیں دے سکتا کہ عمران خان اب فوج مخالف کوئی بات نہیں کریں گے۔ کیا وہ فوج مخالف اپنے بیانیے پر شرمندہ ہیں؟ ایسا بھی اُنہوں نے اب تک کسی انٹرویو میں نہیں کہا۔ وہ عمران خان جو کسی بھی لمحہ کوئی خطرناک سے خطرناک بات کر سکتا ہے اُسے کیا ریاست دوبارہ وزیراعظم بننے دے گی؟ مجھے تو ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا اور یہی رائے اکثر تجزیہ کاروں کی ہے بلکہ تحریک انصاف کے رہنما بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔ عمران خان کو بھی یقین ہے کہ وہ مائنس ون فارمولے کا شکار ہو جائیں گے۔ ایسے میں عمران خان انتخابی سیاست سے خود پیچھے ہٹ کر تحریک انصاف کو بچانےکی ایک کوشش کر سکتے ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن نہ ہو۔ لگتا ہے کہ عمران خان کے گھبرانے کا وقت آ پہنچا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">انصار عباسی<br /><br /> بشکریہ روزنامہ جنگ</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-6423105042854716072023-06-01T06:48:00.000-07:002023-06-01T06:48:21.422-07:00ڈاکٹر عافیہ بہت ظلم سہہ چکی<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi2NpibxZYIVJSM6sNocjb3zzdID9zwONcttmy-46aypc2fNSysj1oNmV7lpWHEb4VK7on1qoOtzamdokOxfUCyfvBEYFKqWnZyDJE-F6RuxIq6OkSyafH8n3rH8CTsd05WfHBksq8tlzU9EShPdlCBeFJuTMuSpCLkldHowRQ0_jtg3wuHJBr81jkKLg/s753/Aafia%20Siddiqui%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="423" data-original-width="753" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEi2NpibxZYIVJSM6sNocjb3zzdID9zwONcttmy-46aypc2fNSysj1oNmV7lpWHEb4VK7on1qoOtzamdokOxfUCyfvBEYFKqWnZyDJE-F6RuxIq6OkSyafH8n3rH8CTsd05WfHBksq8tlzU9EShPdlCBeFJuTMuSpCLkldHowRQ0_jtg3wuHJBr81jkKLg/w400-h225/Aafia%20Siddiqui%204.jpg" width="400" /></a></div>امریکی جیل میں 13 سال سے قید پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی ڈھائی گھنٹے طویل ملاقات ہوئی۔ خبروں کے مطابق یہ ملاقات ٹیکساس کے شہر فورورتھ کی جیل ایف ایم سی کارس ول میں ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ سے ان کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر عافیہ کو لاپتہ ہوے 24 سال اور امریکی قید میں 13 سال کا طویل عرصہ گزر چکا لیکن اس کے باوجود دونوں بہنوں کو نہ ہاتھ ملانے دیا گیا نہ وہ گلے مل سکیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد، جو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ہمراہ امریکہ گئے ہوئے ہیں، نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ دونوں بہنوں کی یہ ملاقات جیل کے ایک کمرے میں ہوئی لیکن دونوں کے درمیان موٹا شیشہ لگا تھا جس سے وہ ایک دوسرے کو دیکھ اور سن تو سکتی تھیں لیکن چھو نہیں سکتی تھیں۔ سفید اسکارف اور خاکی جیل ڈرس میں ملبوس عافیہ صدیقی سے اُن کی بہن کی ڈھائی گھنٹے کی اس ملاقات میں پہلے ایک گھنٹہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے روز روز اپنے اوپر گزرنے والی اذیت کی تفصیلات بتائیں۔ ڈاکٹر عافیہ اپنی بہن سے اپنی ماں (جو اُن کی قید کے دوران وفات پاچکی ہیں) اور اپنے بچوں کے بارے میں پوچھتی رہیں اور کہا کہ ماں اور بچے اُنہیں ہر وقت یاد آتے ہیں۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjVLGyBFAaO3n-i0Kww6UwoRio_8CcPoSPDd_fnZmRktI4ghdbEfZuEdzWLByZ4Xvr6r2hKSpxYjZ_5TWa65lcB63TaHOSjSN4cWsaG8kwShsYhTz2DkCXVPg7eb0WYql4PMNyAPrHsKxWdvllq8FUbhebZycX6sxxhg5WZno8UgDJxd9k3xUwMP9eDqQ/s800/Aafia%20Siddiqui%205.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="480" data-original-width="800" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjVLGyBFAaO3n-i0Kww6UwoRio_8CcPoSPDd_fnZmRktI4ghdbEfZuEdzWLByZ4Xvr6r2hKSpxYjZ_5TWa65lcB63TaHOSjSN4cWsaG8kwShsYhTz2DkCXVPg7eb0WYql4PMNyAPrHsKxWdvllq8FUbhebZycX6sxxhg5WZno8UgDJxd9k3xUwMP9eDqQ/w400-h240/Aafia%20Siddiqui%205.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">ڈاکٹر عافیہ کو اپنی ماں کی وفات کا علم نہیں ہے۔ امریکہ کی قید میں پاکستان کی اس بیٹی کے سامنے والے دانت جیل میں ہوئے حملے میں ضائع ہو چکے ہیں اور اُن کے سر پر لگنے والی ایک چوٹ کی وجہ سے انہیں سننے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔ سینیٹر مشتاق کے مطابق کل ڈاکٹر عافیہ سے اُن کی ڈاکٹر فوزیہ اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ سمیت جیل میں ملاقات ہو گی۔ اُنہوں نے ڈاکٹر فوزیہ کی (عافیہ صدیقی سے) ملاقات کا افسوسناک احوال سناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صورتحال تشویشناک ہے لیکن ملاقاتوں کا، بات چیت کاراستہ کھل گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام آواز اُٹھائیں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ فوری اقدامات کر کے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ امریکی حکومت کے ساتھ اُٹھائیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے اُن کی ملاقات کا یہ مختصر احوال پڑھ کر دل رنجیدہ ہو گیا۔ سوچ رہا ہوں کہ اُن افراد کے ضمیر پر کتنا بوجھ ہو گا جنہوں نے پاکستان کی اس بیٹی کو امریکہ کے حوالے کیا ،جہاں ایک نام نہاد مقدمے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اسی پچاسی سال کی سزا سنا دی گئی۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ ظلم پرویزمشرف کے دور میں ہوا۔ پرویزمشرف کا انتقال ہو چکا ہے، جنہو ں نے اپنی کتاب میں تسلیم کیا کہ اُنہوں نے ڈالرز کے بدلے پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا۔ امریکہ کے دباو میں اپنے شہریوں اور پاکستان کی ایک بیٹی کو امریکہ کے حوالے کرنے میں ایجنسیوں کے جن افراد کا کردار تھا وہ بھی آج کیا سوچتے ہوں گے۔؟ بڑی تعداد میں امریکہ کے حوالے کئے گئے پاکستانی جنہیں گوانتامو بے میں انتہائی مشکل حالات میں رکھا گیا تھا اُن میں سے کئی پاکستان واپس لوٹ چکے لیکن اس گھناونے کھیل میں شامل اُس وقت کے ہمارے ذمہ دار اور کرتا دھرتا اپنے رب کو کیا جواب دیں گے۔ نجانے کب تک ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں پڑی رہیں گی۔ ہماری مختلف سیاسی جماعتیں یہ وعدہ کرتی رہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کیلئے امریکہ سے بات چیت کی جائے گی۔ اس دوران ن لیگ، تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کی حکومتیں آئیں لیکن ڈاکٹر عافیہ کی واپسی کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش کبھی ہوتی دکھائی نہ دی۔ یہ موجودہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی پاکستان منتقلی کا مسئلہ امریکہ کے سامنے سنجیدگی سے اُٹھائے اور اُس وقت تک اس کیس کا پیچھا کرے جب تک کہ پاکستان کی اس بیٹی کی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عافیہ پہلے ہی بہت ظلم سہہ چکی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">انصار عباسی</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ جنگ<br /><br /> </h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-28241321862619097392023-06-01T04:07:00.002-07:002023-06-01T04:07:27.546-07:00عمران خان سے متعلق دس سوالات<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg8z-0aD8X2QCqGzs9hrGS9s7riPDZk_bsSVbqY3IdqROVYhO0lMUCr3J_0xySVQ9aQiG2ota-V4slPOrOxwIb6hcPLXSJT_gh36JlfdounLo5kfHsJpBAKRwLDaRUeD6qwWylcL3_IPegzLIzQNgklS_dwRBwqwoNbXFlpzgv40sLrykLCDx2nV0TKIw/s670/Imran%20Khan%208.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="455" data-original-width="670" height="271" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg8z-0aD8X2QCqGzs9hrGS9s7riPDZk_bsSVbqY3IdqROVYhO0lMUCr3J_0xySVQ9aQiG2ota-V4slPOrOxwIb6hcPLXSJT_gh36JlfdounLo5kfHsJpBAKRwLDaRUeD6qwWylcL3_IPegzLIzQNgklS_dwRBwqwoNbXFlpzgv40sLrykLCDx2nV0TKIw/w400-h271/Imran%20Khan%208.jpg" width="400" /></a></div>پاکستان تحریک انصاف جس صورت حال سے دوچار ہے اسے پوسٹ ٹروتھ کی روایتی جذباتیت سے نہیں، عقل و شعور اور سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں چند سوالات نہایت اہم ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ریاست نے اس دفعہ عمران خان کے معاملے میں جو دو ٹوک اور سخت رد عمل دیا ہے، اس کی وجہ کیا ہے؟ اس بدلتے رویے کا تعلق صرف سیاست سے ہے یا معاملہ ملکی سلامتی کا بن چکا ہے؟ عمران خان ہمارے معاشرے میں جارج آرول کے ’مور ایکول‘ تھے۔ قانون سے بالاتر اور بے نیاز۔ اب مگر پہلی بار قانون نے انہیں نظر بھر کر دیکھا ہے۔ اپنے پرائے کا کوئی فرق نہیں رہا۔ بڑی بڑی سفارشیں ٹھکرا دی گئی ہیں اور قانون کا اطلاق سب پر ہو رہا ہے۔ معاملہ کیا ہے؟ سیاست کا یا ریاست کا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ نو مئی کو جو ہوا وہ اضطراری رد عمل تھا یا باقاعدہ ایک منصوبہ؟ منصوبہ تھا تو اس کی جڑیں داخل میں تھیں یا خارج میں؟ یہ کیا معاملہ ہے کہ عمران خان نے سازش کا الزام بھی امریکہ پر عائد کیا اور ان کے حق میں آوازیں بھی صرف امریکی کانگریس کے نمائندوں نے اٹھائیں۔ زلمے خلیل زاد جیسے کردار بھی امریکی حکومتی ڈھانچے کے قریب ہیں، جو بھلے اقتدار کا حصہ نہیں لیکن امریکی پالیسی سازی میں بطور عامل ان کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بریڈلے شرمن سے زلمے خلیل زاد تک سب کا عمران کے لیے اس حد تک چلے جانا ایک سوالیہ نشان ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">تیسرے سوال کا تعلق عمران خان کے ’سائفر بیانیے‘ سے ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ امریکہ نے سازش کی کیونکہ امریکہ عمران کے دورہ روس سے ناراض تھا۔ سوال یہ ہے کہ پھر عمران کے حق میں روس سے آوازیں کیوں نہیں اٹھ رہیں؟ یہ آوازیں امریکہ سے کیوں اٹھ رہی ہیں؟ اس صورت میں تو امریکہ سے مخالفت ہونا چاہیے تھی اور روس سے حمایت ملنا چاہیے تھی۔ معاملہ اس کے برعکس کیوں ہے؟ پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ امریکہ عمران کو نکال کر جو حکومت لایا، وہی حکومت اسی روس سے تیل خرید چکی ہے اور اس کی پہلی کھیپ پاکستان پہنچ بھی گئی ہے۔ چوتھا سوال محترمہ جمائما کی پاکستانی سیاست میں دلچسپی سے ہے؟ سوال یہ ہے کہ ان کا پاکستانی سیاست میں کیا لینا دینا ہے جو انہیں بےچین رکھتا ہے؟ اگر عمران خان صاحب کے صاحبزادے یہاں سیاست کر رہے ہوتے تو ایک ماں کی دلچسپی سمجھ میں آتی، لیکن قاسم اور سلمان کا پاکستانی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ تک نہیں۔ وہ یہاں کے شہری ہی نہیں تو پاکستانی سیاست میں جما ئمہ صاحبہ اور ان کے بھائی کی دلچسپی کی وجوہات کیا ہیں؟</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjHuQnsiRj7dHM18xH-zoB7pYtEs1f51_yr5NSl0OOwbwYgSqx5ggNSxoWlQcEOX_PYBDJRLVwCYGOLELmKcu9xj5ORRfaFVU1nSQEoR4nObX5WhL7BBj8nwJhu_l5t5JftvQem1URwHuqLFDR02HwKeo00uFNDXDHrVxcugb09_vOl1I2XZA78eeEg7A/s4292/Imran%20Khan%207.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="2415" data-original-width="4292" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjHuQnsiRj7dHM18xH-zoB7pYtEs1f51_yr5NSl0OOwbwYgSqx5ggNSxoWlQcEOX_PYBDJRLVwCYGOLELmKcu9xj5ORRfaFVU1nSQEoR4nObX5WhL7BBj8nwJhu_l5t5JftvQem1URwHuqLFDR02HwKeo00uFNDXDHrVxcugb09_vOl1I2XZA78eeEg7A/w400-h225/Imran%20Khan%207.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عمران خان نے پچھلے ایک سال میں تحریک انصاف بمقابلہ پی ڈی ایم کو تحریک انصاف بمقابلہ فوج اور تحریک انصاف بمقابلہ ریاست بنا دیا۔ یہ بیانیہ ایک سیاسی قوت کا نہیں تھا، یہ ایک نیم عسکری گروہ کا بیانیہ تھا۔ یہ کسی سیاسی جماعت کا رویہ نہیں تھا۔ ایسے رویے کے اہداف بھی بالعموم سیاسی نہیں ہوتے۔ پانچواں سوال گویا یہ ہوا کہ ایک سیاسی قوت کو اس انتہا پر لے جانا عمران خان کی عزیمت سمجھی جائے یا یہ کسی اور کھیل کی ابتدا تھی؟ نیز اس بیانیے کا مخاطب پاکستانی عوام تھی یا مخاطب ملک سے باہر کچھ اور لوگ اور کچھ اور قوتیں تھیں؟ چھٹا سوال عمران خان کے اپنے رویے سے متعلق ہے۔ انہوں نے کہا 9 مئی کے واقعات میں ان کی جماعت کے لوگ شامل نہیں تھے۔ اگر چہ واقعاتی طور پر یہ غلط بیانی ہے۔ تاہم اگر ان کی بات تسلیم بھی کر لی جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ انہوں نے یوم تکریم شہدا پر بطور جماعت مکمل لاتعلقی کیوں اختیار کی؟ ذمہ داری کا کم از کم تقاضا یہ تھا کہ اس موقع پر وہ کہتے کہ شہدا تو ہم سب کے سانجھے ہیں اور ریاست اگر شہدا کی تکریم کا دن منا رہی ہے تو ہم بھی اس عمل میں شامل ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">موجودہ حالات میں کچھ اور ممکن نہ تھا تو ایک عدد ٹویٹ ہی کر دی جاتی۔ اگر وہ شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی میں شامل نہیں تھے، اگر یہ ان کی مرضی اور حکم سے نہیں ہوا، اگر یہ ان کی پالیسی نہیں تھی، اگر یہ توہین کرنے والے ان کی جماعت کے لوگ نہیں تھے تو شہدا کے یوم تکریم سے انہوں نے ایسی سرد مہری سے لاتعلقی کیوں اختیار کی؟ کیا اس سے اپنے کارکنان کو کسی خاص فکری سمت میں دھکیل کر لے جانا مقصود تھا؟ ساتواں سوال بنا کر وہ باتیں یاد آجاتی ہیں جو حکیم سعید مرحوم جیسے لوگ کر گئے ہیں۔ آٹھواں سوال یہ ہے کہ جو لوگ پریس کانفرنسیں کر کے پارٹی چھوڑ رہے ہیں کیا یہ ہمارے سیاسی منظر نامے کے روایتی دباؤ کا نتیجہ ہے یا ان رہنماؤں پر بھی واضح کیا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ اب سیاست کا نہیں، قومی سلامتی کا بن چکا ہے اور اس کے یہ شواہد ہیں؟ یعنی یہ پریس کانفرنسیں دباؤ کا نتیجہ ہیں یا کچھ سنگین شواہد کا؟ نواں سوال یہ ہے کہ عمران خان کے اس سارے سیاسی سفر میں جمہوری عمل اور اہل سیاست معتبر ہوئے یا کمزور؟ یعنی عمران خان نے سماج کو، ملک کو، سیاست کو کیا دیا؟ غلام اسحاق خاں زندہ ہوتے تو دسواں سوال یہ پوچھتا کہ پیر مغاں کا کام تمام ہوا یا انگور کے خوشوں میں کچھ رس ابھی باقی ہے؟ <br /></h2><div><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آصف محمود </h2></div><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو</h2><div><br /></div>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-76924795760472782032023-05-18T02:21:00.001-07:002023-05-18T02:21:43.558-07:00ثاقب نثار کے اعترافات<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEidiS7OqSgnpnPsyZB4HgZagEoarUR8J7vc8RFTkXyTqWkMWgZfJvjk_7BIX0E7WaQ-BHTXJvhk8W8wccbVb4q0ztCx7XpcI9bsUiIla5HbbPghIphFOAha5vc2rLh6iRciJOL4qnZ3SkrpQNh_vRMlpQNc7oS1KnJ5DFyD30SK4XnoaxBSDs-gfJP5pQ/s696/Saqib%20Nisar%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="441" data-original-width="696" height="254" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEidiS7OqSgnpnPsyZB4HgZagEoarUR8J7vc8RFTkXyTqWkMWgZfJvjk_7BIX0E7WaQ-BHTXJvhk8W8wccbVb4q0ztCx7XpcI9bsUiIla5HbbPghIphFOAha5vc2rLh6iRciJOL4qnZ3SkrpQNh_vRMlpQNc7oS1KnJ5DFyD30SK4XnoaxBSDs-gfJP5pQ/w400-h254/Saqib%20Nisar%204.jpg" width="400" /></a></div>پاکستان کے نویں چیف جسٹس شیخ انوارالحق کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ ایک ڈکٹیٹرجنرل ایوب خان نے انہیں ہائیکورٹ کا جج بنایا، دوسرے ڈکٹیٹرجنرل یحییٰ خان نے انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس تعینات کیا جب کہ تیسرے ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ جالندھر سے تعلق رکھنے والے شیخ انوارالحق نے انڈین سول سروس سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور کئی اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، انتظامیہ سے عدلیہ کی طرف آئے تو کراچی اور لاہور سمیت متعدد اضلاع میں بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کام کیا۔ جسٹس انوارالحق تعلیمی قابلیت کے اعتبار سے اکانومسٹ تھے مگر عدلیہ کا رُخ کیا تو یہاں بھی اپنی قابلیت کا سکہ منوایا لیکن انہیں تاریخ ایک ایسے چیف جسٹس کے طور پر یاد کرتی ہے جن کے دور میں نہ صرف مارشل لا کی توثیق کی گئی بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت ڈکٹیٹر کو آئین میں من چاہی ترمیم کا اختیار بھی دے دیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس ان کے دامن پر سب سے بدنما داغ ہے، وہ عمر بھر اس حوالے سے وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ جسٹس انوارلحق اپنی کتاب ’’Revolutionnary, Legality in Pakistan‘‘ میں اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نصرت بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کوآئین سازی یا آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت ضرور دی مگر یہ اجازت صریحاً نظریۂ ضرورت کے تحت دی گئی۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ ایک عبوری بندوبست تھا اور فیصلے کے مطابق عدالتیں نظریہ ٔضرورت کے تحت سی ایم ایل اے کی طرف سے بنائے گئے کسی بھی قانون کا جائزہ لے سکتی تھیں۔ نصرت بھٹو کیس میں جسٹس افضل چیمہ نے اضافی نوٹ لکھ کر نظریۂ ضرورت کے حق میں دلائل دیئے اور لکھا کہDoctrine of Necessity یعنی نظریۂ ضرورت کو اسلامک جیورس پروڈنس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ جسٹس انوارالحق کے علاوہ سپریم کورٹ کے اس بنچ میں شامل بیشتر جج صاحبان صفائیاں دیتے رہے یا پھر ندامت کا اظہار کرتے دکھائی دیئے۔ جسٹس دراب پٹیل جن کا شمار باضمیر جج صاحبان میں ہوتا ہے، انہوں نے بھی برملا اس فیصلے پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس دراب پٹیل اپنی سوانح حیات ’’Testament of a liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس فیصلے پر تنقید کی گئی کیونکہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیدیا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسے لا جرنلز شائع نہیں ہوتے جن میں اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کا جائزہ لیا جائے اور ان پر تنقید کی جائے چنانچہ یہ کام جج صاحبان خود کر سکتے ہیں اور انہیں یہ کرنا چاہئے کہ مخصوص وقت کے بعد اپنے فیصلوں پر تنقید کا جائزہ لیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjQBOGKySsu3La7pPzIpmlgIsf5Y3qIL2X5dNwpNV0wRmNa6ktOxR3w9fHOl28971UIDQxPFuwug0j9t7E0lvfO9VsD045IsZ6fNbE1K4BmAyYEWmSQTFaQfTBC6UKSsBYuR5gIc_EkuT-yXujjujsnF1zcHSoyzjxMRXL6kRXzh3nYs4L5u-lEqL70tw/s556/Saqib%20Nisar%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="370" data-original-width="556" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjQBOGKySsu3La7pPzIpmlgIsf5Y3qIL2X5dNwpNV0wRmNa6ktOxR3w9fHOl28971UIDQxPFuwug0j9t7E0lvfO9VsD045IsZ6fNbE1K4BmAyYEWmSQTFaQfTBC6UKSsBYuR5gIc_EkuT-yXujjujsnF1zcHSoyzjxMRXL6kRXzh3nYs4L5u-lEqL70tw/w400-h266/Saqib%20Nisar%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">(نصرت بھٹوکیس) پر ہونے والی تنقید کہ ہم نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو آئین میں تبدیلی کا اختیار دے دیا، اس کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ تنقید درست ہے۔ نصرت بھٹو کیس کے بعد جنرل ضیا الحق نے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے گئے آئین سازی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے آئین میں آرٹیکل 212A کا اضافہ کر کے اعلیٰ عدالتوں کے پر کاٹ دیئے۔ آرٹیکل 212A کے تحت سپریم کورٹ پر تو کوئی قدغن نہ لگائی گئی البتہ ہائیکورٹس کو فوجی عدالتوں سے متعلق رٹ جاری کرنے سے روک دیا گیا گویا اب ہائیکورٹ کسی فوجی عدالت کی کارروائی روکنے کے لئے حکم جاری نہیں کر سکتی تھی۔ دراب پٹیل اپنی خود نوشت ’’Testament of a Liberal‘‘ میں لکھتے ہیں کہ آرٹیکل 212A کے نفاذ سے پہلے جنرل ضیا الحق نے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انوارالحق اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مولوی مشتاق کو مشاورت کے لئے راولپنڈی بلایا۔ جسٹس انوارالحق ،جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ اورمیں، ہم سب پشاور میں تھے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مولوی مشتاق کے مطابق انہیں معلوم ہوا کہ جنرل ضیا الحق آئین کو منسوخ کرنیوالے ہیں اس لئے انہوں نے آئین کی منسوخی کے متبادل کے طور پر ایک آئینی مسودہ تیار کر لیا۔ یہ آئینی مسودہ جسٹس مولوی مشتاق نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا اور چیف جسٹس انوارالحق نے اس کا جائزہ لینے کے بعد اپنے ہاتھ سے اس میں کچھ ترامیم کیں۔ پھر یہ دونوں چیف جسٹس صاحبان جنرل ضیاالحق سے ملنے گئے جو راولپنڈی میں سینئر جرنیلوں کے ہمراہ ان کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ملاقات بہت کٹھن تھی مگر آخر کار جرنیلوں نے دونوں چیف جسٹس صاحبان کا تیار کردہ مسودہ قبول کر لیا اور آئین کو منسوخ کرنیکا ارادہ ترک کر دیا گیا۔ اس مسودے نے ہی آرٹیکل 212A کی شکل اختیار کی اور سپریم کورٹ کی جیورس ڈکشن کو بچا لیا گیا۔ نصرت بھٹو کیس کا فیصلہ اس خوش فہمی کی بنیاد پر دیا گیا کہ اعلیٰ عدالتیں کام کر رہی ہیں ان کے جوڈیشل ریویو کا اختیار باقی ہے مگر پھر خود ہی اپنے ہاتھ قلم کر دیئے گئے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ سب باتیں یوں یاد آئیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے چند صحافیوں سے گفتگو کے دوران اعتراف کیا ہے کہ بطور جج ان سے غلط فیصلے ہوئے۔ مگر ان فیصلوں کی نشاندہی کرنے کے بجائے انہوں نے کہا کہ بعد از مرگ ان کی آپ بیتی شائع ہو گی جس میں یہ تمام تفصیلات موجود ہوں گی۔ اگر جسٹس دراب پٹیل کے الفاظ مستعار لوں تو پاکستان میں جج صاحبان خود ہی اپنے فیصلوں کا جائزہ لے سکتے ہیں اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ یادداشتیں اور مشاہدات قلمبند کئے جائیں۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی زندگی میں ہی اعتراف کرلیا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کس طرح ہوا۔ حال ہی میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سوانح حیات شائع ہوئی۔ بہتر ہو گا کہ ثاقب نثار بھی اپنی زندگی میں ہی یہ کتاب منظر عام پر لے آئیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">محمد بلال غوری</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ جنگ</h2> KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-21664233561886664682023-05-04T01:05:00.000-07:002023-05-04T01:05:32.106-07:00معیشت کا گلا گھونٹ دیا گیا<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEixHMVTjVahImZMSbj4YtncFqoxSnDHa4sm4u8WJBEvvFoLrSOCeRo-BrQAcUw0tF0hSYXU7Gr0E8854aAcfvAtltPk0ONZL6WcwPszyGVSpd90QM-r7oYXLq-oNMd0YmDpIeOWP2gNH_96Eox_RiJt1U-_cod0AR6WJj4zVYB_O-a1vGTZttKY5i1TBw/s3000/Pakistan%20default%208.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="1687" data-original-width="3000" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEixHMVTjVahImZMSbj4YtncFqoxSnDHa4sm4u8WJBEvvFoLrSOCeRo-BrQAcUw0tF0hSYXU7Gr0E8854aAcfvAtltPk0ONZL6WcwPszyGVSpd90QM-r7oYXLq-oNMd0YmDpIeOWP2gNH_96Eox_RiJt1U-_cod0AR6WJj4zVYB_O-a1vGTZttKY5i1TBw/w400-h225/Pakistan%20default%208.jpg" width="400" /></a></div>بین الاقوامی کریڈٹ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ مزید کم کر دی ہے۔ موڈیز نے گزشتہ چار ماہ کے دوران پاکستان کی ریٹنگ میں دوسری مرتبہ کمی کی ہے۔ آئی ایم ایف کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ نت نئی شرائط رکھ رہا ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امریکی نائب وزیر خزانہ سے ورچوئل رابطہ کر کے انھیں تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا اور آئی ایم ایف کو قائل کرنے کے لیے مدد کی درخواست کی تھی۔ حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ایکسچینج ریٹ شرح سود بیرونی فنانسنگ کے اہداف اور بجلی بلوں پر فی یونٹ ڈیبٹ سروسنگ سرچارجز عائد کرنے کے معاملات پر اختلافات برقرار ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ وزارت خزانہ نے بیرونی فنانسنگ کا ہدف 5 ارب ڈالر مقرر کیا تھا جسے آئی ایم ایف نے بڑھا کر 7 ارب ڈالر کرنے کی درخواست کی ہے۔ آئی ایم ایف نے اس سال کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا ہدف 8.2 ارب ڈالر مقرر کر رکھا ہے حالانکہ موجودہ مالی سال کے سات ماہ کے دوران یہ خسارہ صرف 3.7 ارب ڈالر رہا ہے۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ اگر آئی ایم ایف اپنے موقف میں نرمی پیدا کرے تو وہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ایک ارب ڈالر تک بھی لا سکتی ہے کیونکہ حکومت کو امید ہے کہ جون تک وہ سات ارب ڈالر اکھٹے کر لے گی اور جون تک زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 10 ارب ڈالر تک بڑھ جائیں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgz3eFHcrGoFjrXYTemLgCJ5CwIaoVacXY80j8Cbd5ZraivhGQcAnrje-EUBVc_xpJJOZSwToPzutpsyv2lD72CqMqh9t5VAaeH511_s-KaWZgCwYP4Z5lQB3jEl-SYNn933g-HGxVrJpGlsbd6iJ97_9O1BQo55JevGCJ38ULhXorJe1p4jKIy8MMMFA/s1024/Pakistan%20default%206.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="683" data-original-width="1024" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgz3eFHcrGoFjrXYTemLgCJ5CwIaoVacXY80j8Cbd5ZraivhGQcAnrje-EUBVc_xpJJOZSwToPzutpsyv2lD72CqMqh9t5VAaeH511_s-KaWZgCwYP4Z5lQB3jEl-SYNn933g-HGxVrJpGlsbd6iJ97_9O1BQo55JevGCJ38ULhXorJe1p4jKIy8MMMFA/w400-h266/Pakistan%20default%206.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">لیکن آئی ایم ایف ابھی تک بیرونی فنانسنگ کے معاملے میں پاکستان کی بات نہیں مان رہا۔ حالانکہ اسے یقین دلایا گیا ہے کہ پاکستان کو 2 ارب ڈالر سعودی عرب اور ایک ارب ڈالر متحدہ عرب امارات سے مل جائیں گے۔ حکومت پاکستان کو امید ہے کہ سرکاری اثاثوں کی فروخت کی مد میں بھی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے مزید 2 ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ پاکستان کو چین کی طرف سے 70 کروڑ ڈالر مل چکے ہیں۔ ایک ارب 30 کروڑ مزید تین قسطوں میں ملنے والے ہیں حکومت پاکستان کے ذرایع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر روپے کا ایکسچینج ریٹ مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اتنا بڑا اضافہ ہوا ہے جس کی پاکستان کی پوری تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ حالانکہ ابھی پچھلے ماہ ڈالر کی قدر 230 روپے تک تھی لیکن آئی ایم ایف اب بھی کہہ رہا ہے کہ حکومت ڈالر شرح مبادلہ میں مداخلت کر رہی ہے۔ عالمی ادارہ چاہتا ہے کہ روپے کی شرح مبادلہ ڈالر کو گرے مارکیٹ کے برابر کیا جائے جو کہ درست بات نہیں ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اندازہ لگائیں ہماری مجبوری اور بے بسی کا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں شامل ذرایع کے بقول عالمی ادارے کو بڑا سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن اسے سمجھ ہی نہیں آرہی۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں تنزلی اور بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے اگلے مہینوں کے دوران مہنگائی اپنی انتہائی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی۔ وزارت خزانہ ذرایع کے مطابق پاکستان کے حوالے سے آئی ایم ایف کا رویہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے امریکی نائب وزیر خزانہ کے ساتھ ورچوئل اجلاس میں انھیں یقین دلایا ہے کہ پاکستان نے ماضی میں آئی ایم ایف کے پروگرام مکمل کیے ہیں اور آیندہ بھی کامیابی سے مکمل کرے گا۔ اس بات چیت میں امریکی نائب وزیر خزانہ نے حکومت پاکستان کی مالیاتی اور اقتصادی پالسیوں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ یہ ہے پاکستانی تاریخ کی بد ترین معاشی صورتحال کی درد ناک داستان۔ حالیہ شرح سود میں تین فیصد اضافہ اور ڈالر کا بلند ترین سطح تک پہنچنا معیشت کا گلا گھونٹ دے گا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">زمرد نقوی </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-83517456379634974242023-05-03T05:20:00.000-07:002023-05-03T05:20:36.381-07:00پیسہ کماؤ یا باہر جاؤ<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrfqxcY9aGxJvkFgLzhc96bJsgMOIU31CcJt-3UrMyoGZ2vdKLR5w6zLOVsvKa8xeFe-qkXrgNhHm6QDhV2XijRE-8uIc32QFc9nINdlhgEGvd1X2PNNnrd3WQUXxtl15dhkQVva8wIc_IDINgrVnHUDL6x3mxoAUAWjwIK5phZ7_nHXvZ5Q1kJ7SmGw/s1024/Pakistan%20Judiciary%209.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="768" data-original-width="1024" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjrfqxcY9aGxJvkFgLzhc96bJsgMOIU31CcJt-3UrMyoGZ2vdKLR5w6zLOVsvKa8xeFe-qkXrgNhHm6QDhV2XijRE-8uIc32QFc9nINdlhgEGvd1X2PNNnrd3WQUXxtl15dhkQVva8wIc_IDINgrVnHUDL6x3mxoAUAWjwIK5phZ7_nHXvZ5Q1kJ7SmGw/w400-h300/Pakistan%20Judiciary%209.jpg" width="400" /></a></div>معاشی بدحالی کے ساتھ جہاں ملک میں چوریوں، ڈکیتیوں اور سٹریٹ کرائمز میں واضح اضافہ نظر آتا ہے وہیں جائز طریقے سے پیسہ کمانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے جن کی اولین ترجیح اب بیرونِ ملک منتقلی ہے۔ ادارئہ شماریات کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھی گزشتہ برس کے دوران بیرونِ ملک جانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ روپے کی گرتی قدر کے پیشِ نظر اب زیادہ تر پاکستانی گھر بیٹھے ڈالر یا کسی اور بیرونی کرنسی میں کمائی کو ترجیح دیتے ہیں اور جو ایسا نہیں کر پاتے وہ زیادہ تر خلیجی یا مغربی ممالک کا رُخ کر جاتے ہیں۔ پاکستانیوں میں دیارِ غیر میں منتقل ہونے کا رجحان نیا نہیں لیکن روز افزوں بگڑتی معاشی صورتحال کے پیشِ نظر اس میں حالیہ کچھ عرصہ کے دوران اضافہ ہوا ہے اور بیرونِ ملک منتقلی کے خواہش مند افراد کی ان مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے آج کل کئی فراڈیے بھی مارکیٹ میں آگئے ہیں۔ ویسے امیگریشن ایجنٹوں کے فراڈ کی کہانی تو کافی پرانی ہے، اکثر اوقات ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں شہر میں فلاں بندہ دیارِ غیر کے ویزے کے نام پر شہریوں کے اتنے پیسے لے اُڑا۔ لیکن اب جہاں ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ان فراڈیوں کے طریقہ واردات میں بھی جدت آ چکی ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سوشل میڈیا نے یہ کام مزید آسان بنا دیا ہے۔ پچھلے دنوں مجھے سوشل میڈیا پر ایک خاتون کا پیغام موصول ہوا، انہوں نے ایک ایجنٹ کو 40 لاکھ روپے دے کر کینیڈا کا امیگرینٹ ویزہ لگوایا تھا۔ وہ اُس ویزے سے متعلق خدشات کا شکار تھیں کہ پتا نہیں یہ اصلی ہے یا نہیں۔ اُس ویزے کی اُنہوں نے مجھے جو تصویر بھیجی تھی، اُس سے تو وہ بالکل اصلی لگ رہا تھا اور یہ بتانا ناممکن تھا کہ یہ نقلی ہے۔ لیکن دو چیزوں نے مجھے شک میں ڈالا، ایک تو یہ کہ ویزہ انقرہ، ترکیہ سے جاری کیا گیا تھا اور دوسرا یہ کہ مذکورہ خاتون نے ویزہ کے لئے فنگرپرنٹس نہیں دیے تھے جبکہ کینیڈین ویزہ کے لئے فنگر پرنٹس ایک لازمی شرط ہے۔ میں نے اُنہیں کینیڈین امیگریشن والوں کا نمبر دیا اور کہا کہ وہ وہاں سے معلومات لے لیں۔ وہاں سے معلوم کرنے پر پتا چلا کہ ویزہ بالکل نقلی تھا۔ خاتون کے مطابق جو ایجنٹ تھا وہ خود کو وکیل بھی ظاہر کر رہا تھا، سوشل میڈیا پر اُس کے اچھے خاصے فالور بھی تھے جوویزہ لگوانے پر دن رات اُس کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے تھے۔ کئی تو ایسے تھے جو کینیڈا کے تاریخی مقامات پر کھڑے ہو کر بنائی جانے والی تصاویر بھی شکریہ کے ساتھ اس کی وال پر پوسٹ کرتے تھے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjGhVuS-659Q4bU2gVaiv1VFDzKrdkkFweHHWAtRCNGEysWcWKSYAxelHBYBvNMtaojmvSG_SUafwfAY8uh4MuxqfmbTzpqVjei19laDnoznHhJlVY7-0-bPUXK7netJMBYDQu-Dwz7VRcDZ2Tlk9pelzIqWjJ_pWJ3xcMOL3LujBqbyH14fXGu9APt1w/s670/Pakistan%20Economy%2010.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="447" data-original-width="670" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjGhVuS-659Q4bU2gVaiv1VFDzKrdkkFweHHWAtRCNGEysWcWKSYAxelHBYBvNMtaojmvSG_SUafwfAY8uh4MuxqfmbTzpqVjei19laDnoznHhJlVY7-0-bPUXK7netJMBYDQu-Dwz7VRcDZ2Tlk9pelzIqWjJ_pWJ3xcMOL3LujBqbyH14fXGu9APt1w/w400-h266/Pakistan%20Economy%2010.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ if it is too good to be true, it isn’t۔ یعنی اگر کوئی چیز ناقابلِ یقین حد تک اچھی لگ رہی ہو تو اُس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ یہی بات بہت سے لوگوں کو سمجھ نہیں آتی۔ اگر تھوڑی سی کامن سینس استعمال کی جائے اور اس اصول کو اپنی زندگی پر لاگو کیا جائے تو انسان ایسے دھوکوں سے ہوشیار بھی رہتا ہے اور ان سے بچ بھی سکتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے گروہوں کی بھرمار ہو چکی ہے جو لوگوں کو ڈالر میں کمائی کیلئے نوکریاں چھوڑ کر کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اس تناظر میں کئی کاروباری مشورے بھی دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی بھی سوشل میڈیا پر کافی فالونگ ہے اور ان کیلئے پیسہ بنانا جیسے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیکن اُن سے عملاً کچھ سیکھنے کیلئے آپ کو اُن کے مہنگے مہنگے کورس کرنا پڑتے ہیں یا کوئی مہنگی ممبر شپ لینا پڑتی ہے اور اُن کے کسی منصوبے میں کوئی انویسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے۔ ایسے فراڈیوں کی پہلے بھی کوئی کمی نہیں تھی لیکن اب سوشل میڈیا نے اُن کیلئے کافی آسانی پیدا کر دی ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سوشل میڈیا پر ان لوگوں کی فین فالونگ دیکھ کر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاں، یہ بندہ واقعی صحیح کام کر رہا ہے۔ لوگ اس اُمید میں ڈالروں میں اُن کی مہنگی ممبر شپ خریدتے ہیں کہ شاید اُن کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں لیکن ایسے بیشتر ماڈل یا تو سرے سے ہی فراڈ ہوتے ہیں یا اُتنا آسان نہیں ہوتا جتنا سوشل میڈیا کمپین میں دکھایا جاتا ہے۔ عوام خود سوچیں، ایک عقل مند انسان، جسے ڈھیروں پیسہ کمانے کا طریقہ آتا ہے، وہ اُس طریقے سے لا محدود دولت اکٹھی کرنے کے بجائے دن رات ایسے کورس کیوں کروائے گا جن میں دوسرے لوگوں کو پیسہ کمانے کے طریقے سکھائے جائیں۔ حالانکہ ایسے کورس کرنے کے بعد بھی بندہ اُتنے پیسے نہیں کما سکتا جتنے پیسے کمانے کے سبز باغ دکھا کر ایسے کورسز بیچے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ ہم دوسروں کے بھلے کیلئے ایسا کرتے ہیں لیکن اگر وہ لوگ واقعی دوسروں کا بھلا چاہتے ہیں تو یہ کام فی سبیل للہ کیوں نہیں کرتے؟ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">مسئلہ یہ ہے کہ ہماری جبلت بھی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم ایسے سبز باغ دکھانے والوں پر یقین کریں، کیونکہ یہ یقین اچھے کی اُمید پیدا کرتا ہے اور اُن پر یقین نہ کرنے سے ہم مایوسی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں بھی ایسے بے شمار فراڈیے منظر عام پر آئے تھے اور کچھ اب بھی موجود ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں روز افزوں مہنگائی، بڑھتی ہوئی بے روز گاری، معاشی مواقع کی کمی اور عوام میں تیزی سے پھیلتی مایوسی کی وجہ سے اِن اور ایسے امیگریشن ایجنٹوں کی چاندی ہے۔ جتنا پیسہ ہم ایسے ایجنٹوں کے پیچھے لگا کر برباد کرتے ہیں اُس سے بہتر ہے کہ یہی پیسہ ہم فنی تربیت اور اعلیٰ تعلیم کے حصول پر خرچ کریں، اپنی محنت سے آگے بڑھیں۔ اور کسی بھی امیگریشن اسکیم سے متعلق پہلے خود اچھی طرح تحقیق کر لیں اور ایسے ایجنٹوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">علی معین نوازش <br /></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ جنگ</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-82320497699581847462023-05-03T04:51:00.001-07:002023-05-03T04:51:33.679-07:00وہ ریاست مدینہ اور یہ<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjDEdY1Q3czx9V6JqYNruIFEEwCpIHK9Yedl8wPGBGaRsBlXRxX8xz6BGf-iRqMIWExEYKAExbd6ZYIwkmMg8dXknTOpPsERAnu_BviK-aP1ToJWQRqlZ-8taDueGxlPC8UL0KYbIO4ndmDHE8EiY0FiDESWe3vUvPvXHBOlv6ysGoJsqOuUmPd9rmjyw/s800/Pakistan%20Economy%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="480" data-original-width="800" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjDEdY1Q3czx9V6JqYNruIFEEwCpIHK9Yedl8wPGBGaRsBlXRxX8xz6BGf-iRqMIWExEYKAExbd6ZYIwkmMg8dXknTOpPsERAnu_BviK-aP1ToJWQRqlZ-8taDueGxlPC8UL0KYbIO4ndmDHE8EiY0FiDESWe3vUvPvXHBOlv6ysGoJsqOuUmPd9rmjyw/w400-h240/Pakistan%20Economy%203.jpg" width="400" /></a></div>حضرت عمر منبر پرکھڑے خطاب کررہے تھے کہ مجمع میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا، پہلے یہ بتائیں کہ مال غنیمت میں جو چادریں آئی تھیں اور ہر شخص کو ایک ایک چادر ملی ہے جس سے لباس نہیں بن سکتا اورآپ نے جو لباس پہنا ہوا ہے وہ ایک سے زیادہ چادروں سے بنا ہے، گویا آپ نے دو چادریں لی ہیں۔ حضرت عمر نے بڑے تحمل سے فرمایا، اس کا جواب میرا بیٹا دے تو بہتر ہوگا۔ بیٹا کھڑا ہوکر بولا ، بے شک میرے والد کا لباس دو چادروں سے بنا ہے اور ان میں ایک چادر میں نے اپنے حصے کی دی ہوئی ہے۔ ایک اور موقع پر ملکہ روم کی طرف سے خوشبو کی ایک شیشی آئی تو ان کی زوجہ کو وہ بہت پسند آئی اور لینا چاہی لیکن حضرت عمر نے ان کے ہاتھ سے شیشی چھین کر بیت المال میں داخل کی حالانکہ وہ شیشی ایک طرح سے ملکہ روم نے مسلمانوں کے خلفیہ کی اہلیہ محترمہ کے لیے بھیجی تھی لیکن حضرت عمر کا فیصلہ بھی درست تھا کہ اگر خلیفہ اسلام کی بیوی نہ ہوتی تو ملکہ روم انھیں تحفہ کیوں بھیجتی۔ اس سے پہلے کہ ہم ’’توشہ خانہ‘‘ پر بحث کریں، یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایسے تحائف افراد کو نہیں دیے جاتے ہیں بلکہ اقوام کو دیے جاتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عمرثانی عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ تھے تو کسی علاقے کا حاکم حساب دینے آیا تھا ، حساب کتاب ختم ہو گیا تو حاکم نے خلیفہ سے ان کا اوران کے خاندان کا حال پوچھنا شروع کیا، عمر بن عبدالعزیز نے پہلے چراغ بجھایا اور پھر جواب دیا، حاکم نے چراغ بجھانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا، اس چراغ میں بیت المال کا تیل جل رہا ہے جب تک سرکاری بات چل رہی تھی، جائز تھا، لیکن ذاتی بات چیت میں سرکاری تیل اور چراغ جائز نہیں۔ ایک وہ ریاست مدینہ تھی اور ایک یہ ریاست مدینہ اور یہ ہم نہیں کہتے، اتنی زیادہ گستاخی اور ان پاک ناموں کی اتنی بے حرمتی اور تضحیک کی جرات ہمارے اندر کہاں۔ یہ تو کچھ خاص الخاص لوگ ہوتے ہیں جو سب کچھ کہہ بھی سکتے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں۔ ایک وہ بھی بیت المال تھا اور ایک یہ بھی بیت المال ہے جس کے ایک حصے کو ’’توشہ خانہ‘‘ کہتے ہیں ، وہ بھی حکمران تھے جو تو شہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے اور یہ بھی حکمران ہیں جو توشہ خانہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اوراگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اسے کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔<br />شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے<br />یہ بھی مت کہہ کہ جو کہتے تو گلہ ہوتا ہے</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgjfL0H-K_cj5_Wa6vrvXy8DtR6eSgtMRDq2YeXlxoxyhvYveXibjnkCGa0ZLiPBAUrpCGMbTMLOFIyb44-fz0zohvoNUAPSc2B5ODNsHTU9eY4F7-2er83ZDTWTiyCtB6vq0bnjGluLV6Iemz_d0DB0pYHYTzmfAOIXyEa7I8l6eBRftn2pN2qjKl_WA/s800/Pakistan%20Economy%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="480" data-original-width="800" height="240" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgjfL0H-K_cj5_Wa6vrvXy8DtR6eSgtMRDq2YeXlxoxyhvYveXibjnkCGa0ZLiPBAUrpCGMbTMLOFIyb44-fz0zohvoNUAPSc2B5ODNsHTU9eY4F7-2er83ZDTWTiyCtB6vq0bnjGluLV6Iemz_d0DB0pYHYTzmfAOIXyEa7I8l6eBRftn2pN2qjKl_WA/w400-h240/Pakistan%20Economy%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بیت المال کی تو بات ہی نہیں کریں گے کہ جدی پشتی چور اس کا مال تو پہلے بانٹ چکے ہیں اوراب صرف ’’بیت ‘‘ہی رہ گیا ہے۔ اس کے صرف ایک چھوٹے سے حصے توشہ خانہ کا ذکر کرتے ہیں جو یوں ہے کہ جب ہمارا کوئی سربراہ کسی ملک کے دورے پر جاتا ہے، میزبان ملک اسے تحفے تحائف دیتا ہے، قانونی طور پر اسے وہ تحائف توشہ خانے کے سپرد کرنا ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ تحائف اس فرد کو ذاتی طور پر نہیں دیے جاتے بلکہ ایک دوسرے ملک کو دیتا ہے لیکن یہاں اس کے لیے یہ نرالا دستور نکالا گیا ہے کہ اگر وہ سربراہ چاہے کہ کسی پسند کی چیز کو اپنا لے تو قانون تو اس کی جیب میں پڑا ہوتا ہے، اسے لیے توشہ خانے کے ذمے داران سے کہتا ہے اور وہ ذمے داران ان تحائف کی قیمت چوری کے مال سے بھی کم لگا کر ان کے حضور پیش کر دیتے ہیں کہ وہ بادشاہ کے نوکر ہوتے ہیں بینگن کے نہیں۔ اس سلسلے میں یوں تو صرف ایک حکمران ایوب خان کے علاوہ باقی سب نے اپنا اپنا کام دکھایا ہے، ایوب خان کو اپنے طویل دور حکومت میں تیس تحائف ملے تھے اور اس نے ان میں سے ایک بھی تحفہ نہیں رکھا تھا، سب کے سب توشہ خانہ کے حوالے کر دیے تھے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">باقی سب نے اس بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ اشنان کیے ہیں ، اس کھیل میں سب سے ٹاپ اسکورر شوکت عزیز تھا جسے اس ملک کو سنوارنے کے لیے امپورٹ کیا گیا تھا اور جب وہ ملک کو خوب خوب ’’سنوار‘‘ کر واپس جا رہا تھا تو جہازمیں اس کے ساتھ گیارہ سو چھبیس لوٹے گئے تھے، ’’لوٹے‘‘ اس لیے کہ اس نے تحائف اپنے نام کرانے کے لیے چار مرتبہ توشہ خانے کے قوانین میں تبدیلیاں کی تھیں۔ ان قیمتی تحائف کے لیے اس نے صرف انتیس لاکھ روپے ادا کیے تھے، وہ بھی یہیں کہیں کسی اورسرکاری جیب سے جب کہ ان تحائف کی قیمت دو کروڑ ساٹھ لاکھ روپے سے زیادہ تھی، ان تحائف میں گلے کے ہار، جواہرات ، سونا، ہیرے کی گھڑیاں اور قالین شامل تھے، نیپال سے ملے ہوئے دو رومالوں کی قیمت صرف پچاس روپے ادا کی گئی تھی۔ اس سے باقیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور شوکت عزیز اس فہرست میں اول کھڑا ہے، اس کے پیچھے باقی سارے حکمرانوں کی ایک لمبی قطار کھڑی ہے اور سب کے نیفے پھولے ہوئے ہیں۔ اب بعد از خرابی بیسار احتساب بیورو جاگا ہے،عدالتیں بھی انگڑائی لے کر بیدار ہوئی ہیں لیکن چور اتنے عادی، اتنے دلیر اور اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ باقاعدہ سینہ زوری پر اترآئے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سعد اللہ جان برق </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-25103175635290363552023-04-06T04:59:00.000-07:002023-04-06T04:59:46.686-07:00آٹے کا تھیلا اور ماہ رمضان<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhIbz1PqCVLqmuz_SYT4Z3vfOhsyL1uP7lpL-Azb0g17p_hfYKeHOL0aMbgeQ5LQzkO0WEn8hKs7PHiEfzMT3DKCKbloiljqM21LeCNkKj5snh0POvHxOIKTZAbPTsInp-5PTn_xBrxRWFSFyGa_THrK1Sj-cMCEBFvi7QbTFuuBKDrA6I7rxY8_wDOKw/s1000/Flour%20crisis%20in%20Pakistan%204.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="666" data-original-width="1000" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhIbz1PqCVLqmuz_SYT4Z3vfOhsyL1uP7lpL-Azb0g17p_hfYKeHOL0aMbgeQ5LQzkO0WEn8hKs7PHiEfzMT3DKCKbloiljqM21LeCNkKj5snh0POvHxOIKTZAbPTsInp-5PTn_xBrxRWFSFyGa_THrK1Sj-cMCEBFvi7QbTFuuBKDrA6I7rxY8_wDOKw/w400-h266/Flour%20crisis%20in%20Pakistan%204.jpg" width="400" /></a></div>رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ شروع ہے۔ مسلمان روزے رکھ رہے ہیں لیکن کھانے پینے کی اشیاء بہت ہی مہنگی ہو رہی ہیں، معیشت بیٹھ نہیں رہی بلکہ بیٹھ چکی ہے، ملازمتیں اور روزگار نہیں مل رہا، جیبیں خالی ہیں۔ مہنگائی کی دوسری بڑی وجہ مسلمان تاجر ہیں جو ان روزوں کا اجر اسی دنیا میں وصول کر رہے ہیں۔ روزہ داروں کو تو ثواب جب ملے گا، سو ملے گا لیکن جو لوگ کاروبار کرتے ہیں، انھوں نے ماہ رمضان کو بھی کاروبار بنا دیا ہے اور مال کی صورت ثواب لوٹ رہے ہیں، ایسا ہر سال ہوتا ہے، اس سال تو بہت ہو رہا ہے لیکن حکمرانوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے یہ نام نہاد بڑے لوگ یک نکاتی ایجنڈے متفق ہو جاتے اور اپنی سیاست کو عید کے بعد تک اٹھا رکھتے اور جو فضول خرچی یہ اپنے جلسوں جلوسوں میں کر رہے ہیں، اسی رقم سے وہ روزہ داروں کی پیاس بجھاتے جس سے عوام میں ان کی پذیرائی بھی ہوتی اور وہ ثواب بھی کما لیتے ہیں لیکن ان بڑے لوگوں کو اجر و ثواب سے کیا غرض، ان کا اجر تو صرف اقتدار حاصل کرنا ہے۔ عوام کی حالت ناگفتہ بہہ ہے جس کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">حکومت نے گو کہ رمضان میں کم وسیلہ گھرانوں کے لیے آٹے کے تین تھیلے مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا اور پھر اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا لیکن ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق مفت آٹا فراہمی کی یہ اسکیم بدنظمی کا شکار ہے اور عوام کی ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ بھوک مٹانے کے لیے آٹے کے حصول میں کئی مردو زن اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم جن کی انتظامی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف ہے وہ عوام کو آٹے کی فراہمی کو رواں اور سہل بنانے کے لیے پنجاب بھر کے دورے کر رہے ہیں جب کہ ہمارے دوست نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور وزیر اطلاعات عامر میر بھی اپنی مقدور بھر کوششوں سے اس کار خیر میں حصہ ڈال رہے ہیں لیکن بات بن نہیں پا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت آٹے کی براہ راست فراہمی کے بجائے ان کم وسیلہ گھرانوں کو جو پہلے ہی حکومت کے امدادی پروگرام بینظیر انکم سپورٹ میں رجسٹرڈ ہیں ان کو براہ راست رقم ہی مہیا کر دیتی تو لوگ خود سے ہی آٹے کی خریداری کر لیتے لیکن نہ جانے حکومتوں کے وہ کون سے عقلمند مشیر ہوتے ہیں جو عوام کی سہولت کو بھی زحمت میں بدل کر حکومت کی نیک نیتی کو بدنامی میں بدل دیتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgjDWh2FxKqcnj1cMa8-rF-xNzGLhYj7Cnt7B03Ou3it3iPzWy-aGzlNaooiP7NzL6evwtW0ogqowCxKVnZaEQj_WescutOICHwPVQtEco6FUVadbA5vqK0hmCuArM9H2HfxIheBJ0F2zOMxoY0a9GFGZprKZbrfj7dN6SYkXUpFqEsiOreOpM0gbaw0A/s556/Flour%20crisis%20in%20Pakistan%203.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="370" data-original-width="556" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgjDWh2FxKqcnj1cMa8-rF-xNzGLhYj7Cnt7B03Ou3it3iPzWy-aGzlNaooiP7NzL6evwtW0ogqowCxKVnZaEQj_WescutOICHwPVQtEco6FUVadbA5vqK0hmCuArM9H2HfxIheBJ0F2zOMxoY0a9GFGZprKZbrfj7dN6SYkXUpFqEsiOreOpM0gbaw0A/w400-h266/Flour%20crisis%20in%20Pakistan%203.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آٹے کے دس کلو تھیلے کے حصول کے لیے ٹیلی ویژن پر جو مناظر دیکھے جارہے ہیں، اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اس مفت آٹے کو عوام تک پہنچانے کا درست بندوبست نہیں کر پا رہی ہے۔ کوشش یقینا ہو رہی ہے لیکن وہ صلاحیت نہیں دکھائی دے رہی جوایسے کسی انتظام کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ ادھر ہمارے عوام کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو چکا ہے اور وہ ان دیکھے معاشی خطرات کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ جنس ذخیرہ کرنے کی جد جہد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کراچی میں ایک صاحب حیثیت شخص نے عوام کو سستا فروٹ اور سبزی فراہم کرنے کے لیے اسٹال لگایا جہاں پر ہر چیز دس روپے کلو فراہمی کا بندوبست کیا گیا لیکن ہوا یہ کہ اس سستے انتظام پر عوام نے ہلہ بول دیا اور اس اسٹال سے ہر چیز اٹھا کر لے گئے۔ کوئی کرے تو کیا کرے اور بے صبرے عوام کو کیسے سمجھائے کہ یہ سب کچھ انھی کے لیے کیا جا رہا ہے لیکن بات وہیں پر آکر ٹھہرتی ہے کہ بے کس اور مجبور عوام اپنے مستقبل سے مایوس ہیں اور یہ مایوسی اب اپنی حدوں کو پار کر چکی ہے اسی لیے اس طرح کے واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">پاکستان میں معاشی ابتری کی وجہ سے بے یقینی کی کیفیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس معاشی تنگدستی نے عام آدمی کی قوت خرید انتہائی کم کر دی ہے اور اس بار پہلی دفعہ ماہ رمضان میں عوام بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ عموماً رمضان المبارک میں مخیر حضرات بہت زیادہ صدقہ و خیرات کے علاوہ زکوۃ تقسیم کرتے ہیں لیکن چونکہ اب مستحقین کی تعداد میں حیرت ناک طور پر اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس لیے یہ زکوۃ بھی کم پڑتی نظر آتی ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ جاری ہے حکومت ابھی بھی متعلقہ محکموں کو فعال کر کے عوام کو مارکیٹ میں روز مرہ زندگی کی ضروری اجناس کی ارزاں نرخوں پرفراہمی کو یقینی بنا سکتی ہے اور آٹے کے ایک مفت تھیلے کے حصول کے لیے جس طرح دربدر ہو کر عوام اپنی جانیں گنوا رہے ہیں ان دلخراش مناظر سے بچا جا سکتا ہے۔ بات صرف نیک نیتی اور انتظامی صلاحیتوں کی ہے میاں شہباز شریف انتظامی صلاحیتوں سے مالامال ہیں لیکن اپنے سیاسی اتحادیوں میں گھر کر اپنی انتظامی صلاحیتوں کے ابھی تک وہ جوہر نہیں دکھا سکے جس کے لیے ان کے شہرت ہے۔ رمضان المبارک میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرانا اجر و ثواب کا افضل درجہ ہے اور میاں صاحب کواس ثواب سے محروم نہیں ہو نا چاہیے بے کس اور مجبور عوام کی دعائیں لینی چاہئیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اطہر قادر حسن </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-78719606523678758892023-03-23T06:43:00.001-07:002023-03-23T06:43:35.391-07:00ن لیگ کی مقبولیت ؟<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg80_kgbwc5y-AjY310MdZRKkSV0wcqVShdcDA-4Q14JsDoHlEvAi-0XQ2aN4pGh1QvEY9BGFGp-fNb_HHntHJAJdQjW_JIdB_reAEm0q0aTqYAr8y5CwFk8LI-TFQstxVmGI4aHRnglLSivzqy4AP8Z-bi0XSNDHmzAAecq0YwBAqTkzpYo4zExNkotA/s800/PML%20N%204%208.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="600" data-original-width="800" height="300" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg80_kgbwc5y-AjY310MdZRKkSV0wcqVShdcDA-4Q14JsDoHlEvAi-0XQ2aN4pGh1QvEY9BGFGp-fNb_HHntHJAJdQjW_JIdB_reAEm0q0aTqYAr8y5CwFk8LI-TFQstxVmGI4aHRnglLSivzqy4AP8Z-bi0XSNDHmzAAecq0YwBAqTkzpYo4zExNkotA/w400-h300/PML%20N%204%208.jpg" width="400" /></a></div>عمران خان عوام میں جتنے مقبول ہو چکے ہیں وہ اس سے زیادہ مقبول نہیں ہو سکتے بلکہ اب وہ غیر مقبول ہی ہوں گے اور (ن) لیگ عوام میں جتنی غیر مقبول ہو چکی ہے وہ اس سے زیادہ غیر مقبول نہیں ہو گی بلکہ یہاں سے وہ اپنا مقبولیت کا سفر ہی طے کرے گی‘‘۔ یہ منطق (ن) لیگ کے ایک سینئر رہنما اور میرے دوست مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے ریاست کو بچانے کیلئے مشکل فیصلے کئے اور ہمیں مزید وقت درکار ہے، مگر اگلے انتخابات کا بروقت انعقاد بھی بہت ضروری ہے لیکن اُس سے پہلے ملکی حالات مدنظر رکھنا بھی ازحد ضروری ہے۔ پھر عمران خان کا احتساب بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ (ن) لیگ کی طرف سے آج کل اسی قسم کا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی بھی بیانیے کے مقبول ہونے کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی قسم کے کنفیوژن کا شکار نہ ہو، اُسے پوری پارٹی تسلیم کرے اور اُس پر من و عن یقین رکھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زمینی حقائق بھی ایسے ہونا ضروری ہیں جو آپ کے بیانیے کو فروغ دے سکیں۔ پھر اس طرح کی سوچ کا یہ بھی مسئلہ ہے کہ آپ بھول جاتے ہیں کہ اگر اسٹیٹس کو برقرار رہا اور عمران خان کی مقبولیت اور آپ کی غیر مقبولیت میں کوئی فرق نہ آیا تو پھر آپ کیا کریں گے؟ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">کیونکہ آپ بے شک اب یا سال بعد بھی جو کچھ مرضی کر لیں، اس اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنا بڑا مشکل امر ہے۔ ویسے تو سیاست میں حالات بدلتے دیر نہیں لگتی لیکن اس تبدیلی کیلئے کسی ٹھوس وجہ یا منطق کا ہونا از حد ضروری ہے مگر (ن) لیگ کے اس بیانیے میں ایسی کوئی ٹھوس وجہ یا منطق نظر نہیں آ رہی۔ ابھی تک آئی ایم ایف کا پروگرام بحال نہیں ہو سکا اور اسکی شرائط روز بروز مزید سخت ہوتی جا رہی ہیں۔ یہ بھی واضح نظر آ رہا ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو جون میں پاکستان کو ایک اور آئی ایم ایف پروگرام لینا پڑے گا جس کی شرائط مزید سخت ہو سکتی ہیں۔ اس ضمن میں زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے طے پانے والی شرائط کے نتیجے میں جو مشکل فیصلے کئے جاتے ہیں اُن سے براہِ راست ملک کا غریب طبقہ متاثر ہوتا ہے جبکہ ملک کی اشرافیہ، جس کی ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے بنائی گئی پالیسیوں کی وجہ سے ہم اس نہج تک پہنچے ہیں، پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ حکومتی پالیسیوں کے ردِ عمل میں بھی غریب طبقہ ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg032Lo27aCmgTL1OYsGdeOZFtpkjwa5CeN9YaJKbGi98vwhDQq818VYQxC3QTnJkVw_t82eCGelpx1ILbc2znLAt-o9Oz01q0YQ6R5-i-Ta1rnQ6wshhXzCntrKovKoGhZFF_QwMpYDvCGIJRy8uAlSVXs7_IOAH1o0JzLw3e3TqraHwngFnHeB4uFsg/s670/PML%20N%207.jpg" imageanchor="1" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="412" data-original-width="670" height="246" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEg032Lo27aCmgTL1OYsGdeOZFtpkjwa5CeN9YaJKbGi98vwhDQq818VYQxC3QTnJkVw_t82eCGelpx1ILbc2znLAt-o9Oz01q0YQ6R5-i-Ta1rnQ6wshhXzCntrKovKoGhZFF_QwMpYDvCGIJRy8uAlSVXs7_IOAH1o0JzLw3e3TqraHwngFnHeB4uFsg/w400-h246/PML%20N%207.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اس ساری رسہ کشی میں حکومت ایسے موقع کی تلاش میں ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کر سکے لیکن بدقسمتی سے الیکشن اگر اپنے وقت پر ہوں یا سال بعد بھی، حکومت کی مقبولیت میں کوئی اضافہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ کیونکہ اگر حکومت نے یہ مشکل فیصلے نہ کئے تو پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے پھر مقبول اور غیر مقبول کا کھیل تو رہا ایک طرف، سرے سے ان کی سیاست کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف اور (ن) لیگ کے حامیوں میں ایک بنیادی فرق بھی ہے کہ تحریک انصاف کے حامی عمران خان کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں۔ عمران خان جتنے مرضی یوٹرن لے لیں، جتنے مرضی بیانیے بدل لیں، جس طرح مرضی اپنی کابینہ سے ایک پراپرٹی ٹائیکون کے برطانیہ میں ضبط شدہ اثاثے واپس دلوا دیں، جتنی مرضی گھڑیاں بیچ لیں، اُن کے حامیوں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ جبکہ (ن) لیگ کے لوگ اس لئے حامی تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ (ن) لیگ معیشت کو سنبھال لے گی، کچھ ڈلیور کرے گی، یا عمران خان کے غیر جمہوری اعمال اور آزادی اظہار پر حملوں کی وجہ سے (ن) لیگ کے حمایت میں کھڑے تھے۔ </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">اب اگر (ن) لیگ ڈلیور نہیں کر پا رہی، جس میں (ن) لیگ والوں کی اپنی غلطی ہے کہ انہوں نے مفتاح اسماعیل کو ہٹا کر پھر سے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ لگا دیا جن کی معیشت کو مصنوعی سنبھالا دینے کی حکمت عملی نے عوام کی اُس تکلیف کو، جو محض چند مہینوں میں کم ہو جانی تھی، کئی سال طویل کر دیا ہے۔ دیگر شعبے بھی سست روی کا شکار یا کنفیوژڈ نظر آتے ہیں۔ حکومت کی زیادہ تک پریس کانفرنسز اپنی کارکردگی کا جائزہ پیش کرنے کے بجائے عمران خان پر تنقید پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے حامیوں کا جوش و جذبہ بھی دیگر سیاسی جماعتوں سے کافی زیادہ ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ تحریک انصاف اپنے دورِ اقتدار میں صرف اس لئے غیر مقبول ہوئی تھی کیونکہ وہ عوام کو ریلیف فراہم نہیں کر سکی تھی۔ اس دوران عوام کو شدید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ عوام کی اس معاشی بدحالی کے تناظر میں اگر تحریک عدم اعتماد کے فوراً بعد انتخابات ہو جاتے تو کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم کلین سویپ کر جاتی۔ اب مگر لگتا ہے کہ حکومت یا پی ڈی ایم عوام کی معاشی بدحالی کو پس پشت ڈال چکی ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">عمران خان سیاسی حریفوں کو جیل میں ڈال کر اور آزادی اظہار اور صحافیوں پر پابندیاں لگا کر اپنی مقبولیت برقرار نہیں رکھ سکے تھے، اور اب پی ڈی ایم بھی جو اسی پالیسی پر گامزن نظر آرہی ہے، اس کا انجام بھی تحریک انصاف سے مختلف نہیں ہو گا۔ زیادہ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ خان صاحب اگر پھر سے حکومت میں آتے ہیں تو وہ پھر سے اُسی انتقامی سیاست کی پالیسی پر رہیں گے اور ملک کے بنیادی مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ پھر (ن) لیگ کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایسی حکومت کا کیا فائدہ جس میں نہ نوازشریف پاکستان واپس آ پا رہے ہوں اور نہ ہی حکومت عمران خان کو گرفتار کر پا رہی ہو۔ نہ ہی اُنہیں اداروں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے اور نہ وہ ملکی مسائل حل کر پا رہے ہیں۔ بلکہ جو لوگ جمہوریت کی بقا کی خاطر اس وقت حکومت کے حامی ہیں وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کیا عمران خان واقعی جمہوریت کیلئے اتنا بڑا خطرہ ہے کہ جمہوریت بچانے کیلئے حکومت جمہوریت ہی کو ڈی ریل کرنے پر تیار ہے۔ ایسا بیانیہ نہ بن سکتا ہے اور نہ ہی بک سکتا ہے۔ حکومت کیلئے اپنی غلطیوں کی تلافی کرنا اس وقت بہت مشکل ہو چکا ہے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">علی معین نوازش <br /></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ روزنامہ جنگ</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-3039440408709361361.post-52808645453123382392023-03-14T04:26:00.000-07:002023-03-14T04:26:09.637-07:00سیاسی اخلاقیات کا بحران<h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj7aYfNVZCUx5spY49ms_mC4Bt3t7dHG-6lhboCtTBzbF-dUa7sqX0k6v-uUM5zXcOY3LKlBJXzy69wRKDD3NWQMlqWad_fzUY0k9Us9VHLoAkZTtg2KFHhBlf5O-x8_2gZeG5j8gkhvDckQ2oZPp9BIAsHT-2FoLomtZIKtIjS-1t7tew8s9XByqPfxQ/s696/Pakistan%20Politics%203.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="464" data-original-width="696" height="266" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEj7aYfNVZCUx5spY49ms_mC4Bt3t7dHG-6lhboCtTBzbF-dUa7sqX0k6v-uUM5zXcOY3LKlBJXzy69wRKDD3NWQMlqWad_fzUY0k9Us9VHLoAkZTtg2KFHhBlf5O-x8_2gZeG5j8gkhvDckQ2oZPp9BIAsHT-2FoLomtZIKtIjS-1t7tew8s9XByqPfxQ/w400-h266/Pakistan%20Politics%203.jpg" width="400" /></a></div>سیاست، جمہوریت، قانون اور آئین کی پاسداری کی ایک بڑی بنیاد اخلاقیات پر کھڑا سیاسی نظام ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی نظام اگر عملی طور پر اخلاقی بنیادوں پر استوار نہیں ہو گا تو ا س کا نتیجہ وہی کچھ نکلے گا جو آج ہماری مجموعی سیاست میں غالب نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر ہم اخلاقی معاملات کو محض مذہب کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر مسئلہ محض مذہب کا ہی نہیں بلکہ ہر نظام میں اخلاقی بنیادیں اہمیت رکھتی ہیں اور ان ہی بنیادوں پر معاشروں کی تشکیل نو ہوتی ہے۔ سیاست دان ہوں یا سیاسی جماعتیں یا علمی و فکری ادارے یا رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد یا ادارے ان عوامل پر سوچنے سے قاصر ہیں کہ کیا وہ وجوہات ہیں کہ ہم سیاست میں اخلاقی پستی کا شکار ہو رہے ہیں۔ سیاست میں تنقید یا مخالفت کا جواب تہذیب، شائستگی اور سیاسی ، جمہوری و اخلاقی دائرہ کار میں دینے کے بجائے ہم نے وہ سب کچھ کیا جو عملا ہمیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بدقسمتی سے ہمارے اہل دانش نے بھی اس کھیل کی مخالفت کے بجائے اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر رنگ بھرے ہیں۔ اس لیے محض سیاسی قیادت، سیاسی جماعتیں ہی ذمے دار نہیں بلکہ اہل دانش کا ایک بڑا طبقہ اور خود میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی اس کھیل کی خرابی میں ذمے دار ہیں۔ ہم نے سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں پر اخلاقی سیاسی معیارات یا اقدار پر مبنی مثبت طرز عمل اختیار کرنے اور منفی عمل کو چھوڑنے یا ان کی احتساب کرنے پر کوئی بڑے دباو کی سیاست پیدا نہیں کی۔ حالیہ سیاست میں جو بڑی ڈیجیٹل تبدیلیاں آئی ہیں ان کے جہاں مثبت پہلو ہیں وہیں ہمیں سیاسی محاذ پر ان کے منفی اثرات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنے سیاسی مخالفین کا سیاسی، جمہوری مقابلہ کرنے کے بجائے ’’ آڈیوز اور وڈیوز‘‘ کی بنیاد پر مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر سیاست کا مقابلہ ان ہی آڈیو اور وڈیوز کی بنیاد پر ہونا ہے اور اس میں سچ اور جھوٹ کو بنیاد بنا کر سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرنا ہی مقصد ہے تو پھر ایسی سیاست اور جمہوریت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’آڈیوز وڈیوز‘‘ کی سیاست کو ہم اس کی شفافیت کو جانچنے کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی ان کا فرانزک آڈٹ کروانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اسے کسی قانونی فورم پر چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;"><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEigiXYSSPUm8Q-XUHF5LpgxHrPVp3IjdzqaTZk1jlTgnrScpzY2HNbvtF07h-tEqXWcucobR0iVea0Aa4dQ4d1ASDpk33g8vHvnKpXvKKYizKLGoXn0_EYyGoNY4O92_s41cyIEwtYTJFyx9dn-BFFkRzXAVbCPUiqjVCy3RpxAORcn3BI_RoEfGbzWXQ/s752/Pakistan%20Politics%204.jpg" style="margin-left: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="423" data-original-width="752" height="225" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEigiXYSSPUm8Q-XUHF5LpgxHrPVp3IjdzqaTZk1jlTgnrScpzY2HNbvtF07h-tEqXWcucobR0iVea0Aa4dQ4d1ASDpk33g8vHvnKpXvKKYizKLGoXn0_EYyGoNY4O92_s41cyIEwtYTJFyx9dn-BFFkRzXAVbCPUiqjVCy3RpxAORcn3BI_RoEfGbzWXQ/w400-h225/Pakistan%20Politics%204.jpg" width="400" /></a></div></h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">آج کی ڈیجیٹل دنیا میں جو نئی نئی جہتیں اور ٹیکنالوجی سامنے آرہی ہیں، جعلی آڈیو وڈیوز کا بنانا، آوازوں کو جوڑنا ، مکس کرنا ، اپنے انداز سے ان آڈیو ز وڈیوز کو بنانا ، تصویروں کو اپ لوڈ کرنا جیسے معاملات اب جدید سافٹ ویئرز کی موجودگی میں مشکل نہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب اس کھیل میں بڑی تیزی آگئی ہے اور سیاست یا دیگر شعبہ جات سے یا دیگر ادارے اس کھیل کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار یا حکمت عملی استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام پر سوالیہ نشانات ہیں اورانھوں نے خود سے ایسے سیل قائم کر لیے ہیں جن کا مقصد ہی منفی کھیل کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کھیل نے مجموعی طور پر پورے سیاسی اور جمہوری عمل کو سیاسی آلودگی کا شکار کر دیا ہے اور سب ہی ماتم زدہ ہیں کہ ہم سیاسی محاذ پر کہاں کھڑے ہیں۔ ہم یہ تک بھول رہے ہیں کہ اس کھیل کی بنیاد پر ہم خاندانی نظام میں جو بڑی تباہی لارہے ہیں اس کی ذمے داری کون اٹھائے گا۔ جو آج ہم کسی کے خلاف یہ کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں کل ہمارے ہی خلاف کھیلا جائے گا اور ہم اس کھیل سے ملک کے مجموعی سیاسی کلچر میں طوائف الملوکی کا منظر پیش کریں گے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سائبر کرائم اب دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ اور جرم کے طور پرسامنے آیا ہے مگر ابھی تک ہم نے سائبر کرائم کے تناظر میں جو جدید پالیسیاں یا قانون سازی اختیار نہیں کیں جو ہمیں کرنی چاہیے تھیں۔ مسئلہ محض ڈیجیٹل میڈیا تک محدود نہیں ہمارا مجموعی سیاسی کلچر، طرز عمل ، میڈیا ٹاک شوز، رسمی و غیر رسمی میڈیا ، سماجی محاذ سب ہی اس کھیل میں رنگے گئے ہیں۔ اس منفی کھیل کے خلاف جو دیوار یا مزاحمت ہونی چاہیے، کمزور ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے بڑے سرکردہ سیاست دان، مذہبی و سماجی راہنما اور علم وفکر سے جڑے اہل دانش بھی اس کھیل کی ترویج میں خود بھی حصہ دار ہیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے ہیں کہ اس کی تشہیر میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کھیل کو کیسے روکا جائے یا ختم کیا جائے۔ اصولی طور پر تو ہمیں سیاست او رجمہوریت یا سماجیات کے تناظر میں ایک بڑا مثبت طرز کا نصاب یا ایسا کوڈ آف کنڈکٹ درکار ہے جو عملی سیاست کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔ اس کوڈ آف کنڈکٹ کی نگرانی اور جوابدہی میں سیاسی قیادت خود آگے بڑھ کر لیڈ لے اور اس منفی کھیل کی خود بھی حوصلہ شکنی کرے اور دوسروں کو بھی اس کھیل سے روکے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ خود سیاسی سطح کی قیادت ہی اس کھیل میں مرکزی مجرم ہوتی ہے۔ اسی طرح اہل دانش سمیت میڈیا پر اس کھیل کی تشہیر اور پزیرائی مناسب نہیں بلکہ جو بھی اس کھیل میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے ان پر سخت تنقید بھی کی جائے اور جوابدہ بھی بنایا جائے۔ علمائے کرام اور اساتذہ اس بیانیہ کی تشہیر کریں کہ آڈیوز وڈیوز یا اس طرز کے تمام تر منفی کھیل میں ہمیں حصہ دار بننے کے بجائے ان کا کڑا احتساب کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہماری اعلیٰ عدلیہ کو بھی اس میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے ا ور ایسے لوگ جو اس کھیل کواپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں ان کو روکنا ہو گا تاکہ یہ بند باندھا جاسکے۔ بنیادی طور پر ہمیں سیاست، جمہوریت کی ساکھ اور شفافیت کے لیے ایک نئے سیاسی کلچرکی ضرورت ہے۔ یہ سیاسی کلچر ایک نئے سیاسی بیانیہ کی طرف توجہ دلاتا ہے ۔ ہمیں اس وقت اپنے موجودہ سیاسی اور سماجی کلچر اور طور طریقوں کا کڑا احتساب کرنا ہے اور ایک نئے سیاسی فریم ورک کی طرف آنا ہے ۔ اس کی بنیاد سیاسی ، جمہوری ، قانونی و اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر ہو اور سیاست میں شائستگی یا رواداری پر ہونی چاہیے۔</h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">سلمان عابد </h2><h2 dir="rtl" style="text-align: right;">بشکریہ ایکسپریس نیوز</h2>KHAWAJA UMER FAROOQhttp://www.blogger.com/profile/14382082163645819381noreply@blogger.com0