Pakistan

6/recent/ticker-posts

وہ ریاست مدینہ اور یہ

حضرت عمر منبر پرکھڑے خطاب کررہے تھے کہ مجمع میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا، پہلے یہ بتائیں کہ مال غنیمت میں جو چادریں آئی تھیں اور ہر شخص کو ایک ایک چادر ملی ہے جس سے لباس نہیں بن سکتا اورآپ نے جو لباس پہنا ہوا ہے وہ ایک سے زیادہ چادروں سے بنا ہے، گویا آپ نے دو چادریں لی ہیں۔  حضرت عمر نے بڑے تحمل سے فرمایا، اس کا جواب میرا بیٹا دے تو بہتر ہوگا۔ بیٹا کھڑا ہوکر بولا ، بے شک میرے والد کا لباس دو چادروں سے بنا ہے اور ان میں ایک چادر میں نے اپنے حصے کی دی ہوئی ہے۔ ایک اور موقع پر ملکہ روم کی طرف سے خوشبو کی ایک شیشی آئی تو ان کی زوجہ کو وہ بہت پسند آئی اور لینا چاہی لیکن حضرت عمر نے ان کے ہاتھ سے شیشی چھین کر بیت المال میں داخل کی حالانکہ وہ شیشی ایک طرح سے ملکہ روم نے مسلمانوں کے خلفیہ کی اہلیہ محترمہ کے لیے بھیجی تھی لیکن حضرت عمر کا فیصلہ بھی درست تھا کہ اگر خلیفہ اسلام کی بیوی نہ ہوتی تو ملکہ روم انھیں تحفہ کیوں بھیجتی۔ اس سے پہلے کہ ہم ’’توشہ خانہ‘‘ پر بحث کریں، یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایسے تحائف افراد کو نہیں دیے جاتے ہیں بلکہ اقوام کو دیے جاتے ہیں۔

عمرثانی عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ تھے تو کسی علاقے کا حاکم حساب دینے آیا تھا ، حساب کتاب ختم ہو گیا تو حاکم نے خلیفہ سے ان کا اوران کے خاندان کا حال پوچھنا شروع کیا، عمر بن عبدالعزیز نے پہلے چراغ بجھایا اور پھر جواب دیا، حاکم نے چراغ بجھانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا، اس چراغ میں بیت المال کا تیل جل رہا ہے جب تک سرکاری بات چل رہی تھی، جائز تھا، لیکن ذاتی بات چیت میں سرکاری تیل اور چراغ جائز نہیں۔ ایک وہ ریاست مدینہ تھی اور ایک یہ ریاست مدینہ اور یہ ہم نہیں کہتے، اتنی زیادہ گستاخی اور ان پاک ناموں کی اتنی بے حرمتی اور تضحیک کی جرات ہمارے اندر کہاں۔ یہ تو کچھ خاص الخاص لوگ ہوتے ہیں جو سب کچھ کہہ بھی سکتے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں۔ ایک وہ بھی بیت المال تھا اور ایک یہ بھی بیت المال ہے جس کے ایک حصے کو ’’توشہ خانہ‘‘ کہتے ہیں ، وہ بھی حکمران تھے جو تو شہ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے اور یہ بھی حکمران ہیں جو توشہ خانہ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اوراگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو اسے کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔
شکوہ کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہتے تو گلہ ہوتا ہے

بیت المال کی تو بات ہی نہیں کریں گے کہ جدی پشتی چور اس کا مال تو پہلے بانٹ چکے ہیں اوراب صرف ’’بیت ‘‘ہی رہ گیا ہے۔ اس کے صرف ایک چھوٹے سے حصے توشہ خانہ کا ذکر کرتے ہیں جو یوں ہے کہ جب ہمارا کوئی سربراہ کسی ملک کے دورے پر جاتا ہے، میزبان ملک اسے تحفے تحائف دیتا ہے، قانونی طور پر اسے وہ تحائف توشہ خانے کے سپرد کرنا ہوتا ہے، ظاہر ہے کہ یہ تحائف اس فرد کو ذاتی طور پر نہیں دیے جاتے بلکہ ایک دوسرے ملک کو دیتا ہے لیکن یہاں اس کے لیے یہ نرالا دستور نکالا گیا ہے کہ اگر وہ سربراہ چاہے کہ کسی پسند کی چیز کو اپنا لے تو قانون تو اس کی جیب میں پڑا ہوتا ہے، اسے لیے توشہ خانے کے ذمے داران سے کہتا ہے اور وہ ذمے داران ان تحائف کی قیمت چوری کے مال سے بھی کم لگا کر ان کے حضور پیش کر دیتے ہیں کہ وہ بادشاہ کے نوکر ہوتے ہیں بینگن کے نہیں۔ اس سلسلے میں یوں تو صرف ایک حکمران ایوب خان کے علاوہ باقی سب نے اپنا اپنا کام دکھایا ہے، ایوب خان کو اپنے طویل دور حکومت میں تیس تحائف ملے تھے اور اس نے ان میں سے ایک بھی تحفہ نہیں رکھا تھا، سب کے سب توشہ خانہ کے حوالے کر دیے تھے۔ 

باقی سب نے اس بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ اشنان کیے ہیں ، اس کھیل میں سب سے ٹاپ اسکورر شوکت عزیز تھا جسے اس ملک کو سنوارنے کے لیے امپورٹ کیا گیا تھا اور جب وہ ملک کو خوب خوب ’’سنوار‘‘ کر واپس جا رہا تھا تو جہازمیں اس کے ساتھ گیارہ سو چھبیس لوٹے گئے تھے، ’’لوٹے‘‘ اس لیے کہ اس نے تحائف اپنے نام کرانے کے لیے چار مرتبہ توشہ خانے کے قوانین میں تبدیلیاں کی تھیں۔ ان قیمتی تحائف کے لیے اس نے صرف انتیس لاکھ روپے ادا کیے تھے، وہ بھی یہیں کہیں کسی اورسرکاری جیب سے جب کہ ان تحائف کی قیمت دو کروڑ ساٹھ لاکھ روپے سے زیادہ تھی، ان تحائف میں گلے کے ہار، جواہرات ، سونا، ہیرے کی گھڑیاں اور قالین شامل تھے، نیپال سے ملے ہوئے دو رومالوں کی قیمت صرف پچاس روپے ادا کی گئی تھی۔ اس سے باقیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور شوکت عزیز اس فہرست میں اول کھڑا ہے، اس کے پیچھے باقی سارے حکمرانوں کی ایک لمبی قطار کھڑی ہے اور سب کے نیفے پھولے ہوئے ہیں۔ اب بعد از خرابی بیسار احتساب بیورو جاگا ہے،عدالتیں بھی انگڑائی لے کر بیدار ہوئی ہیں لیکن چور اتنے عادی، اتنے دلیر اور اتنے طاقتور ہو چکے ہیں کہ باقاعدہ سینہ زوری پر اترآئے ہیں۔

سعد اللہ جان برق  

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments