Pakistan

6/recent/ticker-posts

سیاسی اخلاقیات کا بحران

سیاست، جمہوریت، قانون اور آئین کی پاسداری کی ایک بڑی بنیاد اخلاقیات پر کھڑا سیاسی نظام ہوتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی نظام اگر عملی طور پر اخلاقی بنیادوں پر استوار نہیں ہو گا تو ا س کا نتیجہ وہی کچھ نکلے گا جو آج ہماری مجموعی سیاست میں غالب نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر ہم اخلاقی معاملات کو محض مذہب کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر مسئلہ محض مذہب کا ہی نہیں بلکہ ہر نظام میں اخلاقی بنیادیں اہمیت رکھتی ہیں اور ان ہی بنیادوں پر معاشروں کی تشکیل نو ہوتی ہے۔ سیاست دان ہوں یا سیاسی جماعتیں یا علمی و فکری ادارے یا رائے عامہ کی تشکیل کرنے والے افراد یا ادارے ان عوامل پر سوچنے سے قاصر ہیں کہ کیا وہ وجوہات ہیں کہ ہم سیاست میں اخلاقی پستی کا شکار ہو رہے ہیں۔ سیاست میں تنقید یا مخالفت کا جواب تہذیب، شائستگی اور سیاسی ، جمہوری و اخلاقی دائرہ کار میں دینے کے بجائے ہم نے وہ سب کچھ کیا جو عملا ہمیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔

بدقسمتی سے ہمارے اہل دانش نے بھی اس کھیل کی مخالفت کے بجائے اپنی پسند و ناپسند کی بنیاد پر رنگ بھرے ہیں۔ اس لیے محض سیاسی قیادت، سیاسی جماعتیں ہی ذمے دار نہیں بلکہ اہل دانش کا ایک بڑا طبقہ اور خود میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی اس کھیل کی خرابی میں ذمے دار ہیں۔ ہم نے سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں پر اخلاقی سیاسی معیارات یا اقدار پر مبنی مثبت طرز عمل اختیار کرنے اور منفی عمل کو چھوڑنے یا ان کی احتساب کرنے پر کوئی بڑے دباو کی سیاست پیدا نہیں کی۔  حالیہ سیاست میں جو بڑی ڈیجیٹل تبدیلیاں آئی ہیں ان کے جہاں مثبت پہلو ہیں وہیں ہمیں سیاسی محاذ پر ان کے منفی اثرات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ہم اپنے سیاسی مخالفین کا سیاسی، جمہوری مقابلہ کرنے کے بجائے ’’ آڈیوز اور وڈیوز‘‘ کی بنیاد پر مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر سیاست کا مقابلہ ان ہی آڈیو اور وڈیوز کی بنیاد پر ہونا ہے اور اس میں سچ اور جھوٹ کو بنیاد بنا کر سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرنا ہی مقصد ہے تو پھر ایسی سیاست اور جمہوریت کا اللہ ہی حافظ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’آڈیوز وڈیوز‘‘ کی سیاست کو ہم اس کی شفافیت کو جانچنے کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی ان کا فرانزک آڈٹ کروانا چاہتے ہیں اور نہ ہی اسے کسی قانونی فورم پر چیلنج کرنا چاہتے ہیں۔

آج کی ڈیجیٹل دنیا میں جو نئی نئی جہتیں اور ٹیکنالوجی سامنے آرہی ہیں، جعلی آڈیو وڈیوز کا بنانا، آوازوں کو جوڑنا ، مکس کرنا ، اپنے انداز سے ان آڈیو ز وڈیوز کو بنانا ، تصویروں کو اپ لوڈ کرنا جیسے معاملات اب جدید سافٹ ویئرز کی موجودگی میں مشکل نہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب اس کھیل میں بڑی تیزی آگئی ہے اور سیاست یا دیگر شعبہ جات سے یا دیگر ادارے اس کھیل کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار یا حکمت عملی استعمال کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام پر سوالیہ نشانات ہیں اورانھوں نے خود سے ایسے سیل قائم کر لیے ہیں جن کا مقصد ہی منفی کھیل کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کھیل نے مجموعی طور پر پورے سیاسی اور جمہوری عمل کو سیاسی آلودگی کا شکار کر دیا ہے اور سب ہی ماتم زدہ ہیں کہ ہم سیاسی محاذ پر کہاں کھڑے ہیں۔ ہم یہ تک بھول رہے ہیں کہ اس کھیل کی بنیاد پر ہم خاندانی نظام میں جو بڑی تباہی لارہے ہیں اس کی ذمے داری کون اٹھائے گا۔ جو آج ہم کسی کے خلاف یہ کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں کل ہمارے ہی خلاف کھیلا جائے گا اور ہم اس کھیل سے ملک کے مجموعی سیاسی کلچر میں طوائف الملوکی کا منظر پیش کریں گے۔

سائبر کرائم اب دنیا بھر میں ایک بڑا مسئلہ اور جرم کے طور پرسامنے آیا ہے مگر ابھی تک ہم نے سائبر کرائم کے تناظر میں جو جدید پالیسیاں یا قانون سازی اختیار نہیں کیں جو ہمیں کرنی چاہیے تھیں۔ مسئلہ محض ڈیجیٹل میڈیا تک محدود نہیں ہمارا مجموعی سیاسی کلچر، طرز عمل ، میڈیا ٹاک شوز، رسمی و غیر رسمی میڈیا ، سماجی محاذ سب ہی اس کھیل میں رنگے گئے ہیں۔ اس منفی کھیل کے خلاف جو دیوار یا مزاحمت ہونی چاہیے، کمزور ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑے بڑے سرکردہ سیاست دان، مذہبی و سماجی راہنما اور علم وفکر سے جڑے اہل دانش بھی اس کھیل کی ترویج میں خود بھی حصہ دار ہیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیتے ہیں کہ اس کی تشہیر میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کھیل کو کیسے روکا جائے یا ختم کیا جائے۔ اصولی طور پر تو ہمیں سیاست او رجمہوریت یا سماجیات کے تناظر میں ایک بڑا مثبت طرز کا نصاب یا ایسا کوڈ آف کنڈکٹ درکار ہے جو عملی سیاست کے تقاضوں کو پورا کرسکے۔ اس کوڈ آف کنڈکٹ کی نگرانی اور جوابدہی میں سیاسی قیادت خود آگے بڑھ کر لیڈ لے اور اس منفی کھیل کی خود بھی حوصلہ شکنی کرے اور دوسروں کو بھی اس کھیل سے روکے۔

یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ خود سیاسی سطح کی قیادت ہی اس کھیل میں مرکزی مجرم ہوتی ہے۔ اسی طرح اہل دانش سمیت میڈیا پر اس کھیل کی تشہیر اور پزیرائی مناسب نہیں بلکہ جو بھی اس کھیل میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہا ہے ان پر سخت تنقید بھی کی جائے اور جوابدہ بھی بنایا جائے۔ علمائے کرام اور اساتذہ اس بیانیہ کی تشہیر کریں کہ آڈیوز وڈیوز یا اس طرز کے تمام تر منفی کھیل میں ہمیں حصہ دار بننے کے بجائے ان کا کڑا احتساب کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہماری اعلیٰ عدلیہ کو بھی اس میں موثر کردار ادا کرنا چاہیے ا ور ایسے لوگ جو اس کھیل کواپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کررہے ہیں ان کو روکنا ہو گا تاکہ یہ بند باندھا جاسکے۔ بنیادی طور پر ہمیں سیاست، جمہوریت کی ساکھ اور شفافیت کے لیے ایک نئے سیاسی کلچرکی ضرورت ہے۔ یہ سیاسی کلچر ایک نئے سیاسی بیانیہ کی طرف توجہ دلاتا ہے ۔ ہمیں اس وقت اپنے موجودہ سیاسی اور سماجی کلچر اور طور طریقوں کا کڑا احتساب کرنا ہے اور ایک نئے سیاسی فریم ورک کی طرف آنا ہے ۔ اس کی بنیاد سیاسی ، جمہوری ، قانونی و اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر ہو اور سیاست میں شائستگی یا رواداری پر ہونی چاہیے۔

سلمان عابد 

بشکریہ ایکسپریس نیوز

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments