وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منصب سنبھالتے ہی پی ٹی آئی حکومت اور مفتاح اسماعیل کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 200 روپے تک محدود رکھیں گے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں گی، منی بجٹ کے ذریعے غریب عوام پر نئے ٹیکس نہیں لگائیں گے، ایکسپورٹ صنعتوں کو بجلی اور گیس کے رعایتی نرخ جاری رہیں گے اور بجلی، گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں ہو گا لیکن آئی ایم ایف اپنی شرائط منوائے بغیر معاہدے کی بحالی کے مذاکرات کیلئے تیار نہیں تھا۔ آئی ایم ایف پروگرام کی معطلی کے باعث ڈونرز ایجنسیوں، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کیلئے نئی فنانسنگ روک دی جبکہ دوست ممالک نے اپنے سافٹ ڈپازٹ کی مدت میں توسیع اور نئی مالی امداد کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے مشروط کر دیا جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر آنے کے تمام دروازے بند ہو گئے لیکن بیرون ملک ڈالر جانے کے دروازے کھلے رہے۔
بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں مسلسل ہو رہی ہیں اور رواں مالی سال 2.8 ارب ڈالر کی مزید ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے نتیجے میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 10 سال کی کم ترین سطح 3 ارب ڈالر پر آگئے ہیں۔ پاکستانی روپیہ خطے کی کرنسیوں میں سب سے کمزور ثابت ہوا ہے جو انٹربینک میں 277 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 280 پر پہنچ گیا ہے لیکن روپے کو فری فلوٹ کرنے سے پہلے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے 30 روپے فرق کی وجہ سے پاکستان کی ترسیلات زر میں کمی ہوئی ہے کیونکہ بیرون ملک مقیم کچھ پاکستانیوں نے اتنے زیادہ فرق سے فائدہ اٹھانے کیلئے اپنی ترسیلات زر ہنڈی یا حوالے کے ذریعے پاکستان بھیجنے کو ترجیح دی جس کے باعث بینکنگ چینل سے ترسیلات زر میں کمی دیکھنے میں آئی جبکہ خام مال کی امپورٹ میں رکاوٹوں کی وجہ سے گزشتہ ماہ جنوری میں ملکی ایکسپورٹس میں 15 فیصد اور FBR کے پہلے 6 مہینے کے ریونیو ہدف میں 217 ارب روپے کی کمی ہوئی۔ معاشی بحران کو دیکھتے ہوئے بالآخر حکومت نے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط ماننے کی ہامی بھر لی جس کیلئے حکومت کو سخت اور غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔
حکومت نے روپے کی قدر کے مصنوعی نظام کو ترک کر کے مارکیٹ مبنی فری فلوٹ نظام پر چھوڑ دیا جس کی وجہ سے جنوری سے اب تک انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں ریکارڈ 50 روپے یعنی 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے صرف ایک دن میں بیرونی قرضوں میں تقریباً 2800 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ قارئین!یہ وہ قرضے ہیں جو ہم نے دراصل لئے نہیں لیکن راتوں رات روپے کی قدر (ایکسچینج ریٹ) میں کمی کی وجہ سے ہمیں اضافی دینا پڑیں گے۔ اسٹیٹ بینک نے افراط زر کنٹرول کرنے کیلئے پالیسی ریٹ مزید بڑھا کر 17 فیصد کر دیا جس سے بینکوں کے شرح سود 19 سے 20 فیصد تک ہو گئی اور بزنس کی مالی لاگت میں شدید اضافہ ہوا جو نئی سرمایہ کاری کیلئے حوصلہ افزا نہیں۔ اتوار 29 جنوری کو حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر کا اضافہ کر دیا جس سے پیٹرول کی نئی قیمت 250 روپے اور ڈیزل کی نئی قیمت 263 روپے فی لیٹر ہو گئی، جس سے جنوری میں مہنگائی (CPI) 1975ء کے بعد 48 سال میں ریکارڈ 28 فیصد تک پہنچ گئی، جس کے آنیوالے دنوں میں 32 فیصد ہونے کی توقع ہے کیونکہ IMF پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس اور 10 روپے فی لیٹر PDL بھی عائد کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جس سے پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہو جائیں گی۔
گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر ٹیکس ایمنسٹی کا اعلان کیا جس پر آئی ایم ایف نے معاہدہ معطل کر دیا تاہم موجودہ حکومت کے آئی ایم ایف مطالبات پر رضامندی کے بعد آئی ایم ایف مذاکراتی ٹیم 31 جنوری کو پاکستان آئی اور آرڈیننس اور منی بجٹ کے ذریعے اضافی ٹیکسز لگانے، گردشی قرضے کم کرنے کیلئے بجلی کے نرخوں میں 12.50 روپے فی یونٹ اور گیس کے نرخوں میں 74 فیصد اضافہ، 283 ارب روپے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی، ادویات اور LPG کی قیمتوں میں 60 روپے فی کلو اضافہ، سیلاب متاثرین کیلئے 500 ارب روپے کے اخراجات کی اجازت، بیورو کریسی کے اثاثوں کی تفصیلات اور 2017ء کے بے نامی ٹرانزیکشنز ایکٹ پر عملدرآمد جیسی شرائط پیش کیں جبکہ حکومت نے پہلے مرحلے میں بجلی کے نرخ میں 6.32 روپے فی یونٹ اضافے اور 300 یونٹ تک سبسڈی ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔ آئی ایم ایف بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے 600 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے پر بھی زور دے رہا ہے مگر حکومت پہلے مرحلے میں 200 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے پر آمادہ ہے ۔
حکومت نے گردشی قرضے کم کرنے کیلئے آئی ایم ایف کو سرکلرڈیٹ مینجمنٹ پلان پیش کیا ہے لیکن آئی ایم ایف کو حکومتی مینجمنٹ پلان کے عملدرآمد پر تحفظات ہیں۔ وزیر خزانہ آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کیلئے دوست ممالک سے 4 سے 5 ارب ڈالر کے نئے سافٹ ڈپازٹس کیلئے بھی کوشاں ہیں تاکہ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین ڈیڈلاک ختم اور اسٹاف لیول معاہدہ کیا جاسکے۔ معیشت کے طالبعلم کی حیثیت سے میرے نزدیک اگر آئی ایم ایف کے تمام مطالبات مان کر ان پر عملدرآمد کیا گیا تو ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہو جائے گا جس سے بیروزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہو گا لیکن موجودہ حالات میں حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے!
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments