پاکستان نے آئی ایم ایف سے 2019ء میں 6 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈز کا معاہدہ کیا تھا جسے جون 2023 تک بڑھا کر 7 ارب ڈالر کر دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کی ساتویں اور آٹھویں 1.1 ارب ڈالر کی جائزہ قسط اس سال 22 اگست کو ادا کی گئی تھی لیکن آئی ایم ایف نے 1.18 ارب ڈالر کی نویں قسط 3 نومبر 2022ء سے روکی ہوئی ہے کیونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی بقایا شرائط پر عملدرآمد نہیں کیا، جس کیلئے آئی ایم ایف نے حکومت کو 15 سے 20 دن دیئے ہیں۔ پاکستان سیلاب اور دیگر وجوہات کی بناء پر آئی ایم ایف معاہدے پر نظرثانی کرنا چاہتا ہے کیونکہ عالمی کساد بازاری، مہنگائی اور معاشی بحران کے باعث حکومت نئے ٹیکسز عائد کرنے جیسے مزید سخت فیصلے نہیں کر سکتی تاہم ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لا کر اس سال 7470 ارب روپے کا ریونیو ہدف پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی میں تاخیر سے پاکستان کی معاشی صورتحال ہر روز ابتر ہوتی جارہی ہے، ایس بی پی کے زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ کمی سے 5.8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، جن میں سے 10 جنوری کو حکومت نے 1.3 ارب ڈالر کی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے جس کے بعد ایس بی پی کے زرمبادلہ کے ذخائر صرف 4.5 ارب ڈالر رہ جائینگے، جس میں 3 ارب ڈالر سعودی عرب اور 2 ارب ڈالر چین کے سافٹ ڈپازٹ ہیں جن کو ہم استعمال نہیں کر سکتے۔
اس کے علاوہ ہمیں جنوری سے مارچ کے دوران مزید 7 ارب ڈالر قرضوں کی ادائیگی کرنا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر کمرشل بینکوں کے ذخائر 5.9 ارب ڈالر سے کم ہو گئے ہیں۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا دبائو شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان نے دوست ممالک سے انکے سافٹ ڈپازٹ کے رول اوور کی درخواست کی ہے لیکن آئی ایم ایف پروگرام بحال نہ ہونے کی وجہ سے دوست ممالک کترا رہے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ پہلے پاکستان میں مستحکم حکومت اور آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو جبکہ آئی ایم ایف سے گرین چٹ نہ ملنے کی وجہ سے دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے بھی فنڈز نہیں مل رہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق پاکستان کو جولائی سے جون 2023ء تک 23 ارب ڈالر ملنے کی توقع تھی لیکن رواں مالی سال کے پہلے 5 مہینوں میں صرف 5.1 ارب ڈالر ملے ہیں جس میں سیلاب زدگان کیلئے 435 ملین ڈالرز کی گرانٹس بھی شامل ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی ایک اور وجہ پاکستان سے افغانستان ماہانہ 2 ارب ڈالر کی اسمگلنگ ہے جس کے باعث آج کل انٹر بینک میں ڈالر 226 روپے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 256 روپے میں بھی نہیں مل رہا۔
ڈالر کی قیمت میں 30 روپے کے فرق کی وجہ سے ترسیلات زر بینکنگ چینل کے بجائے حوالے یا ہنڈی سے بھیجی جارہی ہیں جس سے ملکی ترسیلات زر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک کی ہدایت پر بینکوں نے ڈالر کی کمی کے باعث امپورٹ LCs کھولنے پر پابندی عائد کر دی ہے اور کھانے پینے کی اشیا، پیٹرولیم مصنوعات، ایکسپورٹ کیلئے خام مال کے علاوہ باقی اشیا کی امپورٹ کیلئے LCs کھولنے پر پابندی عائد ہے۔ اِسی طرح بغیر LCs امپورٹ گڈز پر پورٹ پر ڈیمرج چارجز پڑرہے ہیں اور خام مال اور پارٹس کی عدم دستیابی سے بے شمار بڑی صنعتیں بند ہو گئی ہیں۔ آئی ایم ایف نے حکومت سے توانائی کے شعبے میں 4 کھرب روپے سے زائد کے گردشی قرضوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جس کو کم کرنے کیلئے بجلی کے نرخوں میں 12.7 روپے فی یونٹ سرچارج لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جسکے نتیجے میں بجلی کی قیمت 31.6 روپے فی یونٹ ہو جائیگی۔ سیلاب متاثرین کی بحالی کے اخراجات بجٹ خسارے میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔
آئی ایم ایف نے حکومت کو اپنے وسائل اور بیرونی امداد سے 340 ارب روپے کے اخراجات پر آمادگی ظاہر کی ہے جس کیلئے حکومت جنوری میں جنیوا میں ڈونرز کانفرنس کر رہی ہے تاہم آئی ایم ایف نے 1800 ارب روپے کے کسان پیکیج پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ملک میں معاشی بحران اور بزنس کمیونٹی کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے جنگ گروپ کے منیجنگ ڈائریکٹر اور میرے دوست شاہ رخ حسن نے گزشتہ دنوں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے کراچی میں اپنی رہائش گاہ پر ایک خصوصی میٹنگ رکھی جس میں میرے علاوہ اپٹما کے چیئرمین، مختلف ممالک کے قونصل جنرلز، کالم نگار اور سینئر صحافیوں کے گروپ نے صدر مملکت کو ملک میں سیاسی عدم استحکام اور اس سے پیدا ہونے والے معاشی بحران کے بارے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا، جس کا اعتراف وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی کر رہے ہیں۔ میں نے صدر پاکستان سے کہا کہ عمران خان ملک میں مارچ میں انتخابات کیلئے حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں جس کیلئے ہمیں 3 مہینے پہلے فوراً عبوری حکومت تشکیل دینا ہو گی لیکن آئی ایم ایف کسی عبوری حکومت سے معاہدے کیلئے تیار نہیں۔
آئی ایم ایف کی دی گئی مدت میں اگر معاہدہ بحال نہیں ہوتا اور ہمیں دوست ممالک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے مطلوبہ فنڈز نہیں ملتے تو بدقسمتی سے ڈیفالٹ ہمارا مقدر ہو گا۔ سری لنکا کے ڈیفالٹ ہونے کے بعد اسکی کرنسی میں 80 یصد کمی اور مہنگائی 60 فیصد بڑھ گئی ہے ۔ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی صورت میں بھی روپے کی قدر میں نہایت کمی اور مہنگائی ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گی۔ میں نے صدر پاکستان کو بتایا کہ گزشتہ تین چار سال کی معاشی گراوٹ کو سنبھالنے کیلئے وقت درکار ہو گا۔ یہی بات اپٹما کے چیئرمین آصف انعام اور عارف حبیب نے بھی صدر مملکت سے کی، جس پر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مفاہمتی گرائونڈ پیدا کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں FATF کی طرح یکجا ہو کر ہر صورت آئی ایم ایف پروگرام بحال کروائیں تاکہ ڈالر آنے کے دروازے کھل سکیں اور ملک ڈیفالٹ سے بچ سکے۔
ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
بشکریہ روزنامہ جنگ
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments