آج ریاست پاکستان کو چلانے اور بگاڑنے والو، سیاسی قائدین و عوامی نمائندگان، آئینی وانتظامی سربراہو، ایوان ہائے عدل و احتساب کے سربراہو، بزنس ٹائیکونز، جاگیردارو، ملکی سرحدوں کے محافظو، ملکی ذرائع ابلاغ عامہ کے مالکان اور صحافیو، تحفظ انسانی حقوق کے علمبردارو، دانشورو، پیشہ ورو اور فنی شعبوں کے ماہرو اور مشیرو! ہم بھول تو نہیں گئے کہ پاکستان کس کیلئے کیوں اور کیسے بنا تھا؟ یہ کیسے اور کتنا چلا اور چل رہا ہے؟ کیسے ٹوٹا، ٹوٹ کر کیسے سنبھلا، بحرانی وطن، دنیاوی ناخدائوں سے مزاحمت کرتا کیسے دنیا کی 7ویں ایٹمی طاقت بنا اور بن کر اپنی قومی سیاست و حکومت میں ہم نے وہ دھماچوکڑی مچائی کہ چلتی پھلتی معیشت سہم گئی اور دبک کر اب زمین سے لگ گئی۔ سال رواں کے جولائی میں بلومبرگ نے جو انویسٹر ایجوکیشن کے طور پر الرٹ جاری کیا، اس میں بدترین ریاستی مالیاتی مینجمنٹ کے حامل 25 ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان تیزی سے گرتا چوتھے نمبر پر آگیا تھا۔
یہ صورت تب بنی جب 9 ماہی موجودہ حکومت کے اقتدارمیں آتے ہی ڈالر 215، بیس کے درمیان ہچکولے کھاتا یکدم 250 روپے پر آگیا، مہنگائی کا سونامی ایسا آیا کہ پاکستانی عوام کے کچن پر اتنے مختصر عرصے میں مہنگائی کا اتنا بڑا حملہ کبھی نہ ہوا تھا جو پی ڈی ایم حکومت کے اقتدار میں آتے ہی ہوا اور تادم تحریر جاری ہے۔ اسی میں پٹرول، بجلی اور ایندھن کے خول نے کروڑہا پاکستانیوں کو نچلے درجے پر دھکیل دیا۔ بے روزگاری کوبرا وار بن کر مزدوروں پر حملہ آور ہے۔ اوپر سے ملک میں بدترین سیلاب کی تباہی اور اس کی بدتر ڈیزاسٹر مینجمنٹ، فوج اور چند بڑی فلاحی تنظیموں کی قابل ذکر مدد نہ ہوتی تو نہ جانے کیا ہوتا۔ پاکستان بدترین ریاستی مالیاتی مینجمنٹ پر اب ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے دو چار ملکوں میں تیونس اور گھانا کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ السلویڈر ہو چکا، تیونس ریڈ لائن کو چھو گیا، گھانا قریب تر اور اس کے ایک قدم پیچھے ہم کمزور ٹانگوں پر جیسے کھڑے ہوتے ہیں، ہلتے جلتے، ڈرے سہمے کھڑے ہیں۔
واحد سہارا حکومتی کھوکھلی تسلیاں رہ گئیں۔ ایسے میں بھی ملک میں اقتدار کو پکا کرنے اور اس کا دائرہ بڑھانے، الیکشن سے فرار اور اپنے معمولی دبے ہلتے جلتے کلے کو مضبوط کرنے کی دھما چوکڑی مچی ہوئی ہے۔ سیاسی ابلاغ اور اس کے بڑے اور سرگرم پلیٹ فارم مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر ڈالر کے کال کی دہائی ایسی پڑ رہی ہے کہ نئی نسل بے چاری ڈالر ہی کو پاکستان کا مائی باپ (ہے تو) سمجھ بیٹھی، خطرے کی سیٹیاں بجاتی موجود صورتحال میں یہ غلط بھی نہیں۔ قارئین کرام، خصوصاً آج ’’آئین نو‘‘ کے مخاطبین! متذکرہ مندرجات میں جو رونا دھونا مچایا گیا ہے وہ ملک بھر میں مچ رہا ہے۔ میڈیا اور سیاسی ابلاغ میں حل کی تلاش سے زیادہ اسی آہ و بکا کا غلبہ ہے، ’’آئین نو‘‘ میں اس اضافے کا مقصد فقط مخاطبین کو ہوش میں لانا ہے لیکن ایک چونکا دینے والے حل کے ساتھ۔ خاکسار نے قومی امورسے متعلق اپنی یادداشت اور اخباری آرکائیو پر بیس کرتی ایک معمولی سی ریسرچ سے جاری گھمبیر بلکہ پرخطر ہو گئے ملکی اقتصادی بحران کا ایک محال پھر بھی (اگر اتحاد، ہمت اور اہلیت ہو) قابل تلاش و حصول حل نکالا ہے جس تک رسائی کے لئے قومی جدوجہد کا آغاز ہو سکتا ہے۔
صدر مملکت جناب عارف علوی اور ن لیگ کے مسیحائے معیشت نے پہلے قدم اٹھانے ہیں لیکن یہ اس وقت ملک کے سب سے بڑے پارلیمانی اور پاپولر لیڈر عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف کے مطلوب مکمل سنجیدہ رویوں کے بغیر تکمیل کو پہنچے گا نہ اس کا آغاز ہو سکے گا۔ تجسس ختم، اب پہلے 10 مئی 2014ء کے اخبارات میں شائع ہونے والی خبر پڑھیں، اگلی بات بعد میں کرتے ہیں کہ میڈیا آرکائیو سے نکالی یہ خبر کس طرح ملک کو خطرے میں ڈالے معاشی بحران کا نتیجہ اور ثمر آور حل بن سکتی ہے۔ ملاحظہ ہو ’’وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 بلین ڈالر کے خفیہ خزینے کی تصدیق کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے اس غیر قانونی پاکستانی سرمائے کے سوئس بینکوں تک پہنچ اور حصول کیلئے ابتدائی کارروائی شروع کر دی ہے۔
ان پاکستانی اکائونٹس سے متعلق تحریک انصاف کے عارف علوی کے اٹھائے گئے سوال کا مفصل تحریری جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے سوئٹزر لینڈ کے سابق وزیر خارجہ اور ایک سوئس بینکر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان دونوں نے بتایا ہے کہ پاکستانیوں کے صرف 97 بلین ڈالر تو صرف ان (ڈائریکٹر) کے ہی بینک میں جمع ہیں جبکہ اسحاق ڈار نے یہ انکشاف بھی کیا کہ سابق وزیر خارجہ مکلین کامی رے کے پاکستانیوں کے سوئس بینکوں میں 200 بلین ڈالر ہونے کی تردید بھی کسی طرف سے نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ خفیہ جمع شدہ رقوم کے جن اعدادو شمار کا انکشاف ہوا ہے وہ درست ہیں۔ انہوں نے کہا صورتحال کا تقاضا ہے کہ اس جانب کارروائی کی جائے۔ اس انکشاف کو اس تناظر میں بھی دیکھا جائے کہ پاکستان پر کل بیرونی قرضے 150 بلین ڈالر کے ہیں جبکہ پاکستان کا کل جی ڈی پی 300 بلین ڈالر کے قریب ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ نظری طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ سوئس بینکوں میں پڑے سرمائے سے پاکستانی تمام قرضے نہ صرف ادا ہو سکتے ہیں بلکہ خفیہ خزانے کا ایک چوتھائی بچ جائے گا۔ اسحاق ڈار نے انکشاف کیا کہ حکومت اس پر سوئس بینکاری کی نئی قانون سازی کے حوالے سے کام کر رہی ہے جیسا کہ THE RESTITUTION OF ILLICIT ASSEETS ACT. 2010 سوئس حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ سوئس بینکوں میں ٹھکانے لگائی رقوم کے بارے میں انفارمیشن کا تبادلہ کرے۔ اس ضمن میں حکومتی اقدامات شروع ہو چکے ہیں اور گزشتہ سال ستمبر میں کابینہ اس حوالے سے سوئس حکومت سے رابطے کی منظوری دے چکی ہے۔ سو پاک سوئس ٹیکس ٹریٹی پر مذاکرات اگست میں ہونگے۔ وزیر خزانہ نے ایوان کو بتایا کہ سوئس بینکوں میں موجود خفیہ اکائونٹس کے حوالے سے مختلف بین الاقوامی ذرائع نے سوئس حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس ضمن میں تعاون کرے۔
آج کے مخاطبین ’’آئین نو‘‘ غور فرمائیں۔ ن لیگی حکومت 2018ء تک رہی، اس نے اس حوالے سے مزید کیا کیا؟ آج کے صدر مملکت ایوان میں متذکرہ انکشافات کے اپنا سوال اٹھانے کے ناطے محرک تھے، انہوں نے تحریک انصاف کی حکومت آنے کے فوراً بعد یا کسی مرحلے میں انفارمیشن رچ قانون ساز ہونے کے ناطے عمران حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ اس پر کام کرے، فالو اپ یا ازسرنو۔ ن لیگی مسیحائے معیشت اسحاق ڈار موضوع کا مکمل بیک گرائونڈ نالج کے حامل ہونے اور اپنے دور میں ابتدائی کارروائی تک ہونے کے باوجود اقتصادی بحران ختم کرنے کی اتنی بڑی آپشن کو کیوں بھول گئے جس پر وہ اپنی موجود سینیٹر شپ سے نکلی وزارت میں عملاً قدم اٹھا چکے تھے۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہی، بین الاقوامی ذرائع کے دبائو سے سوئس بینکاری نظام میں ہونے والی قانون سازی، خود سوئس حکام کے انکشافات اور تصدیق کے بعد ملین نہیں بلین ڈالر سوال موجودہ شہباز حکومت پر ہے کہ وہ اس پر تادم تحریر خاموش کیوں ہے؟
کہیں اتحادیوں میں سے کسی کی نیک کمائی تو الحمد للہ سوئس بینکوں کے خفیہ کھاتوں کی خبر تو نہیں کہ اپنے سابقہ دور کے فالو اپ سے اتحاد ٹوٹ پھوٹ جائے گا؟ کیا عمران خان اپنے سیاسی ابلاغ کا رخ سب کچھ ختم کر کے سوئس بینکوں سے حکومت کو رجوع کرانے کی طرف موڑ سکتے ہیں؟
ڈاکٹر مجاہد منصوری
بشکریہ روزنامہ جنگ
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments