پاکستان اس وقت جن معاشی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے، ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔ سیاسی استحکام صرف اس صورت میں آ سکتا ہے کہ فوری طور پرنئے عام انتخابات کا انعقاد ہو اور ان کے نتیجے میں ایک مضبوط حکومت قائم ہو۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے بھی اگلے روز اپنے ایک بیان میں ملک کو درپیش حالات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ سیاسی استحکام اور میثاق معیشت ہی پاکستان کی قومی سلامتی کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم بھی سیاسی عدم استحکام سے پریشان ہیں اور انہوں نے اپنے بیان میں بدیہی طور پر یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ایسی صورت حال میں معیشت کو نہیں سنبھالا جا سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سیاسی استحکام کیسے آئے گا؟
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں وزیر اعظم سمیت تمام رہنما سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اسمبلیاں توڑ کر ملک کو مزید سیاسی عدم استحکام میں دھکیل رہے ہیں۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کی قیادت پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام لگا رہی ہے۔ کیونکہ اس کے خیال میں عمران خان کی مخلوط حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گرا کر سیاسی استحکام کا خاتمہ کیا گیا۔ دونوں الزامات در الزامات کی سیاست کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں سیاسی استحکام کیسے آسکتا ہے۔ اگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں کسی میثاق معیشت پر اتفاق کر لیتی ہیں تو بھی اس پر عمل درآمد کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔
عالمی معاہدے اور کمٹ منٹس ملک میں سیاسی حالات کو دیکھ کر کئے جاتے ہیں ۔ سیاسی عدم استحکام میں میثاق معیشت کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے رہنما آج جس میثاق معیشت کی بات کر رہے ہیں، اپوزیشن میں ہوتے ہوئے وہ اس طرح کا میثاق عمران خان کی حکومت کے ساتھ بھی کر سکتے تھے۔ اگر عمران خان انکار کرتے تو ساری ذمہ داری ان پر عائد ہوتی۔ اس وقت ویسے بھی کسی کے پاس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا کوئی واضح اور قابل عمل پروگرام نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اب تک کوئی ایسا معاشی پلان نہیں دیا، جس کو میثاق معیشت کی بنیاد بنایا جا سکے۔ میثاق معیشت کی کامیابی سیاسی استحکام سے وابستہ ہے اور سیاسی استحکام کیلئے موجودہ حالات موافق نہیں ہیں، ان حالات کے ذمہ دار تمام سیاسی فریق ہیں۔
کہا گیا کہ عمران خان کی حکومت نے معیشت کو تباہ کر دیا۔ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے عمران خان کی حکومت کو گرانا ضروری تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ معاشی بحران ختم ہونے کی بجائے مزید گہرا ہو گیا ہے۔ پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام کو بھی دھچکا لگا ہے۔ سیاسی عدم استحکام جیسے جیسے بڑھتا جائے گا، معاشی مشکلات ویسے ویسے بڑھتی جائیں گی ۔ جس طرح عمران خان کی حکومت چھوٹی اتحادی سیاسی جماعتوں کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی ، اسی طرح پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت بھی انہی چھوٹی اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں کا سہارا لئے ہوئے ہے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار بھی کرنا چاہوں گا کہ یہ چھوٹی اتحادی جماعتیں کسی اور کی بیساکھیوں کے سہارے پر چل رہی ہیں۔
عمران خان کی حکومت کو گرا کر جس سیاسی عدم استحکام کا آغاز کیا گیا، وہ اب بھی جاری رہے گا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ بہتر یہی ہے کہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کر لیا جائے۔ اسمبلیاں توڑنے اور اسمبلیا ں بچانے کی کشمکش سے سیاسی استحکام نہیں آئے گا بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ معاشی بحران کی وجہ سے ملک عام انتخابات کے فوری انعقاد کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ عام انتخابات پر اخراجات زیادہ ہوتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ معذرت خواہانہ اور انتخابات سے فرار کی سوچ ہے ۔ اخراجات کی وجہ سے انتخابات کو کب تک روکا جا سکے گا۔ اگر انتخابات فروری یا مارچ میں نہ ہوئے تو اکتوبر میں بہر حال کرانا پڑیں گے کیونکہ آئین سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات اور ان پر ہونے والے اخراجات سے فرار ممکن نہیں۔
پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کے بعض وزراء یہ اشارے بھی دے رہے ہیں کہ ملک میں معاشی ایمرجنسی لگا کر عام انتخابات چھ ماہ تک موخر کئے جا سکتے ہیں۔ یعنی اکتوبر 2022ء کی بجائے مارچ 2023 ء میں انتخابات ہو سکتے ہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انتخابات کو مؤخر کرنے سے سیاسی عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا، جو معاشی بحران کو مزید خطرناک بنا سکتا ہے۔ اگر انتخابات مؤخر کر دیئے تو بالآخر کرانا تو پڑیں گے ہی اور ان پر اخراجات بھی ہوں گے اور اس وقت تک ملک کے سیاسی حالات اور معیشت کو سنبھالنا مزید دشوار ہو جائے گا۔ اگر ملکی معیشت کو سنبھالنا ہے تو سیاسی استحکام لانا ہو گا اور سیاسی استحکام لانے کیلئے فوری طور پر عام انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔
نفیس صدیقی
بشکریہ روزنامہ جنگ
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments