Pakistan

6/recent/ticker-posts

ملک حالیہ سیاسی بھنور سے نکل پائے گا؟

پاکستان کی سیاست اس وقت دو اہم ایشوز کے گرد گھوم رہی ہے۔ ایک ایشو یہ ہے کہ نیا آرمی چیف کون ہو گا اور دوسرا ایشو یہ ہے کہ آئندہ کے لئے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کس سیاسی جماعت یا جماعتوں کو حاصل ہو گی ؟ اس سیاست میں کوئی بھی یہ نہیں سوچ رہا کہ پاکستان کے عوام کا کیا ہو گا، جو ہر لمحہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا عذاب جھیل رہے ہیں اور جو اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کے بار ے میں مایوسی کا شکار ہیں۔ اس سیاست میں کسی کو اس بات کی فکر بھی نہیں ہے کہ بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی سیاست اور نئی صف بندی میں پاکستان کہاں کھڑا ہو گا اور داخلی کشمکش کے خارجہ امور پر کس قدر خطرناک اثرات مرتب ہوں گے ؟ ہم ایک سیاسی بھنور میں پھنس چکے ہیں، یہ ایک ایسی صورت حال ہے، جس سے پاکستان شاید پہلے کبھی دوچار نہیں ہوا ۔ نہ صرف سیاسی قوتیں مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کر رہی ہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ بھی پہلے کی طرح سیاسی سمت اندازی کرنے ( Maneuvering ) کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ ایک طرف تو پاکستان کے سنگین معاشی بحران کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی سے کسی ایک سیاسی جماعت یا گروہ کی کھل کر حمایت یا مخالفت نہیں کر سکتی اور دوسری طرف وہ اپنی ماضی کی پالیسیوں کے غیر متوقع نتائج کے باعث کسی حد تک داخلی تضادات کا شکار ہے ۔ 

مجموعی طور پر سیاسی قوتوں کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے پاس بھی کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے کہ عوام کو کس طرح ریلیف دیا جائے، معیشت کو کیسے سنبھالا جائے اور بدلتی ہوئی عالمی اور علاقائی صورت حال میں پاکستان کو کس طرف لے جایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فی الوقت سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے سربراہ عمران خان اور دیگر قائدین اپنے لانگ مارچ اور جلسوں میں مہنگائی کو ختم کرنے، لوگوں کو روزگار اور گھر فراہم کرنے کے اپنے ماضی کے وعدوں کو دہرا نہیں رہے۔ اسی طرح پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) میں شامل سیاسی جماعتیں بھی اپنا کوئی معاشی پروگرام نہیں دے رہیں۔ کوئی بھی عوام کے مسائل پر بات نہیں کر رہا۔ تمام سیاسی قوتوں کا فوکس یہ ہے کہ آرمی چیف ان کی مرضی کا ہو اور آئندہ کے سیاسی سیٹ اَپ کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے معاملات طے کر لئے جائیں۔ داخلی اور خارجی حالات کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ اپنی چوائس کے مطابق فیصلے نہیں کر سکے گی۔ اس کی چوائس اوپن ہے۔

ملک میں کوئی ایسی سیاسی قوت یا جماعت نہیں ہے، جو جکڑ بندیوں سے آزاد ہو یا جو 1960 ء کے عشرے میں ابھرنے والی سیاسی قوتوں کی طرح اپنی سمت کا تعین خود کر سکے۔ ایسی نئی سیاسی جماعت کے ابھرنے کی فی الحال کوئی امید نظر نہیں آ رہی ۔ خاص طور پر لبرل یا بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی کوئی سیاسی جماعت اس خلا کو پر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ البتہ مذہبی سیاسی قوتوں کے لئے امکانات زیادہ روشن ہیں۔ بشرطیکہ اسٹیبلشمنٹ ان پر ہاتھ رکھے ، جو کہ اسٹیبلشمنٹ کا درست فیصلہ نہیں ہو گا۔ پی ٹی آئی کی موجودہ مقبولیت کے باعث بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ کسی نئی مقبول سیاسی جماعت کا ابھرنا فی الحال ممکن نہیں لیکن پی ٹی آئی کی سیاسی سمت وہ نہیں ہے، جو تیسری دنیا کی مقبول سیاسی جماعتوں کی ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاست اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے۔ وہ صرف اپنی عوامی مقبولیت سے اسٹیبلشمنٹ پر اپنی کھلی حمایت کے لئے دبائو ڈال رہی ہے۔ 

اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حلقوں کی اسے حمایت بھی حاصل ہے۔ انحصار کرنے کی اس سیاست کے ذریعے نہ صرف پی ٹی آئی عوام کو ریلیف دینے کے لئے کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا سکے گی، جیسا کہ وہ پہلے بھی نہیں لا سکی بلکہ اس سے وہ پاکستان کی سیاست کو مزید کمزور کرے گی لیکن اس وقت تک یہ حقیقت ہے کہ عمران خان بہت مقبول سیاسی لیڈر ہیں۔ وہ اگر چاہیں تو پاکستان کو اس صورت حال سے نکال سکتے ہیں۔ وہ پاکستان کے لوگوں کی آواز ہیں۔ کسی بڑی کایا پلٹ کے لئے انہیں دیگر سیاسی قوتوں سے ٹکرا ئو کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس مواقع موجود ہیں مگر فی الحال پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں اقتدار کی سیاست میں الجھی ہوئی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ ماضی کی طرح سیاسی سمت اندازی کرنے کی اپنی صلاحیت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے بھائی موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ وطن واپس آرہے ہیں۔ ان کی واپسی کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے ہونے سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ 

ان کی واپسی سے ملک میں سیاسی درجۂ حرارت بڑھ جائے گا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مابین سیاسی بالادستی حاصل کرنے کی کشمکش میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس کشمکش میں اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش کرے گی۔ اسٹیبلشمنٹ عام انتخابات تک اپنے کارڈز اوپن نہیں کرے گی۔ چاہے آرمی چیف کا تقرر بھی ہو جائے۔ عوام کو ریلیف دینے ، معیشت کو سنبھالنے، مہنگائی کو قابو کرنے اور خارجہ پالیسی میں واضح حکمت عملی کا تعین کرنے کے بارے میں ابھی کوئی بھی نہیں سوچ رہا۔ فی الحال پاکستان کے حالات صحیح سمت میں نہیں جا رہے۔ عوام کی سیاسی بے چینی اور تکالیف بھی حالات کو کسی رُخ پر ڈالنے کا سبب نہیں بن سکتی ہیں۔ صرف انارکی اور افراتفری کے امکانات ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ کسی سیاسی اور معاشی میثاق پر بات کریں اور اسے حتمی شکل دے کر ملک کو کسی درست سمت پر گامزن کریں ورنہ کوئی بھی اکیلے اس پوزیشن میں نہیں کہ ملک کو اس صورتِ حال سے نکال سکے۔

نفیس صدیقی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments