Pakistan

6/recent/ticker-posts

ماہی گیر مولانا ہدایت الرحمٰن گوادری

نوجوانوں سے التماس ہے کہ اگر ممکن ہو تو اپنے قیمتی وقت میں سے چند منٹ نکال کر اِس تحریر کو ذرا غور سے ضرور پڑھیے اور خود سے سوال کیجیے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟ کیسا لیڈر آپ کے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھر سکتا ہے؟ آپ جن لیڈروں کے کھوکھلے نعروں کے پیچھے ہلکان ہوئے جاتے ہیں، ایسی نفرتوں کو آگے بڑھاتے ہیں کہ ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے سے بھی گریزاں نہیں ہوتے، احتجاج بھی ایسا کرتے ہیں کہ لاشیں گرتیں اور ماؤں کی گودیں اُجڑ جاتی ہیں لیکن مسائل جوں کے توں ہی رہتے ہیں۔ ہم سب کی یہی خواہش ہے کہ ہمارا پیارا پاکستان دنیا بھر میں تہذیب یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہو۔ نفرتوں سے پاک پاکستان میری بھی خواہش ہے اور آپ کی بھی تو کیوں نہ ماضی سے سبق حاصل کر کے آگے بڑھیں۔ میری عرصہ سے خواہش تھی کہ کوئی ایک تو ایسا ہو جو اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے حق سچ کی بات کہے اور میدانِ عمل میں آئے، جو ہم جیسا ہو، ہمارے دکھ درد سمجھنے والا، جسے ایک مثالی رول ماڈل لیڈر کے طور پر پیش کیا جا سکے کہ ایسا ہوتا ہے ایک سلجھا ہوا رہنما جو دلیل سے آپ کی بات حکمرانوں تک پہنچا سکے اور اس کی بات پر لاکھوں لوگ صدقِ دل سے آمین کہیں۔ 

سو ایک ملا ہے ماہی گیر مولانا ہدایت الرحمٰن گوادری۔ ذرا پڑھیے وہ کیا چاہتا ہے۔ ”ہم سی پیک کی مد میں کوئی موٹروے نہیں مانگ رہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ گوادر، مکران کی سڑکوں پر سنگِ مر مر کی ٹائلیں لگا دیں۔ ہمارے بلاک سونے کے بنا دیں۔ ہمیں محلات، ایک کروڑ نوکریاں دے دیں۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جو قدرت کی طرف سے ساڑھے سات سو کلو میٹر طویل ساحل ہے جس سے ہزاروں سال سے ہمارے آباؤ اجداد روزگار حاصل کرتے تھے، خوش حالی کی زندگی گزار رہے تھے، بدقسمتی سے چند برسوں سے وفاقی و صوبائی حکومت کی سرپرستی میں ہزاروں کی تعداد میں ٹرالر مافیا سمندری حیات کی نسل کشی کر رہا ہے۔ غیرقانونی ماہی گیری کے لیے ممنوعہ جال استعمال کیے جارہے ہیں جس کی وجہ سے مچھلیاں نایاب ہو گئی ہیں اُن کی نسلیں ختم کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں ماہی گیر متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ ہم سمندر میں مزدوری کرتے ہیں، حکمران ٹیکس مانگتے ہیں تو ہم ٹیکس دیں گے، پیسے مانگتے ہیں تو ہم دینے کو تیار ہیں۔ حکومت ہمیں پیسے نہ دے، ہم حکومت کو پیسے دے دیتے ہیں لیکن خدارا ہمارا روزگار ہم سے نہ چھینا جائے۔ 

دوسرا یہ کہ بلوچستان کے 5اضلاع ایران کے بارڈر پر ہیں۔ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے۔ ایران سے اشیائے خورونوش آتی ہیں۔ ان اضلاع کو ایران بجلی، گیس اور روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی فراہم کرتا ہے۔ ایرانی بارڈر کی بندش کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اگر سیکورٹی ضروری ہے تو ضرور فراہم کریں۔ ہم اس کے خلاف نہیں ہیں لیکن آزادانہ باعزت روزگار کی فراہمی بھی سرکار اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔ تیسرا چیک پوسٹوں کا مسئلہ ہے۔ ہم تو سی پیک سے یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ گوادر پورٹ، سی پیک روڈ سے ہمیں روزگار ملے گا، تعلیم ملے گی، اسپتال ملیں گے، ہماری زندگی اچھی ہو جائے گی۔ ہمیں علاج کے لیے کراچی نہیں جانا پڑے گا۔ ہمیں یہ تمام سہولتیں یہاں ملیں گی لیکن سی پیک سے ہمیں صرف چیک پوسٹیں ملیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں لاکھوں لوگ احتجاج کر رہے ہیں لیکن ایک پتھر بھی نہیں ہلا، پاکستان کے حکمران دیکھ لیں ہماری ریلی ناراض بلوچوں کی ریلی ہے جو حکمرانوں اور نظام کے خلاف ہے۔ 

ہم ریاستِ پاکستان کے خلاف نہیں۔ ہم آئینِ پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے مطالبہ کر رہے ہیں، ہم سی پیک اور ترقی کے خلاف بھی نہیں لیکن ہمیں اس سے کیا ملا؟ علاج معالجے کے لیے ایک بھی اسپتال نہیں ملا، ہماری عزتِ نفس کو مجروح کیا جارہا ہے۔ بلوچستان کو تعلیمی اداروں کی ضرورت ہے۔ یہاں تعلیمی اداروں کے لیے ٹیچر مانگنا جرم بن گیا ہے۔ حق کی بات کرتے ہیں تو غداری کے سرٹیفکیٹ سے نوازا جاتا ہے۔ بتایا جائے کہ حب الوطنی کے سرٹیفکیٹس کہاں سے ملیں گے؟ اہلِ بلوچستان اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں۔ ریاستِ پاکستان میں اگر حق مانگنا جرم ہے تو ہم یہ جرم کرتے رہیں گے۔ ہم محبِ وطن شہری ہیں، ہمارا احتجاج پُرامن ہے۔ اس پُرامن احتجاج کو دیکھ کر ذرا بتائیے کہ یہ حب الوطنی ہے یا غداری ؟ ہمارا نوجوان غدار نہیں، ہمارے مطالبات میں ایسا کیا ہے جو ہمیں غدار کہا جارہا ہے؟ ایک شہری کے جو حقوق ہیں، ہم وہی مانگ رہے ہیں۔ کیا بارڈر مافیا کو لگام دینا کوئی جرم ہے۔ ہمارے دس ہزار نوجوان منشیات میں ڈوبے ہوئے ہیں، کیا انہیں سیدھا راستہ دکھانا جرم ہے؟ 

منشیات فروش محبِ وطن، ہمارے ماہی گیر دہشت گرد، کلبھوشن کے دہشت گرد ہونے کے باوجود اس کی رہائی کے لیے تو راستے تلاش کیے جاتے ہیں لیکن غداری کے الزامات ہم محب وطنوں کے لیے ہیں؟ ہم اس رویے کے خلاف ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے، کوئی کالونی نہیں۔ حق بات نہ کریں، انصاف نہ مانگیں تو ہمیں بتایا جائے کہ ہم کیا کریں؟“۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک ماہی گیر نے مقامی لوگوں کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ایسی پُرامن ”حق دو“ تحریک چلائی جس میں لاکھوں ماہی گیر، مزدور، طلبہ و طالبات، بلوچ خواتین سمیت تمام شہریوں نے گزشتہ ایک ماہ سے دھرنا دیا ہوا ہے، کوئی توڑ پھوڑ ہوئی نہ جلاؤ گھیراؤ، یہ لوگ اقتدار مانگتے ہیں نہ ہی اعلیٰ سیاسی عہدہ تو پھر انہیں ان کا جائز حق کیوں نہیں دیا جارہا؟ ریاست اگر ماں کے جیسی ہے تو پھر ان کو جائز حق کیوں نہیں دیتی؟ آج گوادر ہی نہیں پورا پاکستان اس آواز میں اپنی آواز شامل کر رہا ہے۔

عرفان اطہر قاضی

بشکریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments