ہم میں سے بہت لوگ سرکاری سر پرستی کے ہر پارک کو قومی یا نیشنل پارک سمجھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ عالمی یونین برائے قدرتی تحفظ ( آئی یو سی این ) کے مطابق، '' ہر وہ پارک یا علاقہ قومی پارک کہلانے کا حق محفوظ رکھتا ہے جو نایاب بناتات، آبی اور جنگلی حیات کو ایسا موافق ماحول فراہم کرتا ہو جو ان کی بقا کا ضامن ہو۔ یہاں نہ کوئی درخت کاٹ سکتا ہو ، نہ جانوروں کا شکار اور نہ ہی یہاں کسی قسم کی کھدائی کر سکتا ہو۔ گویا یہاں فطرت اور قدرت کا قانون ہی نافذ ہوتا ہو۔ ‘‘
قومی پارکوں کی اہمیت: اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ سمندروں اور جنگلات کے بعد قومی پارک ہی ہیں جن کی بدولت انواع و اقسام کی آبی اور خشکی کی مخلوق کو قدرتی اور فطری ماحول میں پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آتے ہیں۔یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ حیاتیاتی تنوع کے عالمی معاہدے کے تحت پاکستان اس بات کا پابند ہے کہ وہ آبی اور زمینی مخلوق کی بقا کے لئے محفوظ علاقوں میں بالترتیب 10 سے 15 فیصد تک اضافہ کرے۔ دنیا میں قومی پارک کا تصور سب سے پہلے 1810ء میں ولیم ورڈز ورتھ نے دیا تھا۔ جبکہ دنیا کا سب سے پہلا قومی پارک 1872 میں '' ییلو سٹون نیشنل پارک ‘‘ کے نام سے امریکہ میں قائم کیا گیا تھا۔ اس وقت دنیا میں ساڑھے چھ ہزار کے لگ بھگ قومی پارکس ہیں جن میں سب سے بڑا پارک '' گرین لینڈ نیشنل پارک ‘‘ ہے۔ پاکستان میں اگرچہ اس وقت مجموعی طور پر 28 قومی پارک ہیں جن میں کیتھر قومی پارک، لال سوہانرا قومی پارک، خنجراب قومی پارک، چترال گول قومی پارک ، مارگلہ ہل قومی پارک، دیو سائی قومی پارک وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
پاکستان کا سب سے بڑا قومی پارک : ہنگول قومی پارک پاکستان کے سب سے بڑے قومی پارک کا اعزاز یوں رکھتا ہے کہ یہ 6 لاکھ 19 ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ پارک کراچی سے 190 کلومیٹر کے فاصلے پر بلوچستان کی ساحلی پٹی پر واقع ہے۔ اس پارک کا نام اس کے جنوبی حصے میں بہنے والے دریائے ہنگول کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس پارک کو 1988ء میں قومی پارک کا درجہ دیا گیا تھا۔
دریائے ہنگول چونکہ بحیرہء عرب کے ساحل کے ساتھ بہتا ہے اس لئے اسے یہ انفرادیت حاصل ہے کہ یہ بہت بڑی تعداد میں آبی پرندوں اور سمندری حیات کی محفوظ پناہ گاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ پاکستان کا واحد قومی پارک ہے جو بیک وقت بلوچستان کے تین اضلاع آواران ، گوادر اور لسبیلہ تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی پر ہی بس نہیں بلکہ یہ اس لحاظ سے بھی ایک منفرد پارک ہے کہ یہ بیک وقت چار مختلف نوعیت کے ماحولیاتی نظام پر مشتمل ہے۔ اس میں دیکھنے کو جہاں صحرا ملیں گے وہیں آپ کو طویل پہاڑی سلسلہ بھی نظر آئے گا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق یہ پارک 289 کے لگ بھگ حیواناتی حیات اور 257 کے لگ بھگ نباتاتی انواع کا مسکن ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی ایک بڑا پارک ہے کہ اس میں آبی حیات، سمندروں اور خشکی پر رہنے والے جانور بشمول دنیا بھر سے آئے سینکڑوں قسم کے نایاب نسل کے پرندے کثرت سے شامل ہیں۔
اس سے بڑھ کر اس پارک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ دنیا بھر میں معدومیت کی جانب جاتی آبی اور زمینی مخلوق اور نایاب پرندوں کی بہت بڑی محفوظ پناہ گاہ کی شناخت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس پارک کو جنگلی حیات کی جنت بھی کہتے ہیں۔ مارخور جو پاکستان کا قومی جانور کہلاتا ہے یہاں کی ماحول دوست فضا میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اڑیال، چنکارہ، بارہ سنگھا، پہاڑی بکرا، لومڑی ، گیدڑ، جنگلی بلی، وغیرہ بھی فراوانی سے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ رینگنے والے جانوروں میں دلدلی مگر مچھ , لمبی چھپکلی, موٹی زبان والی عجیب شکل کی چھپکلی, عجیب وغریب اقسام کے کچھوے, کوبرا ناگ اور دیگر بے شمار زمینی مخلوق ہر سو متحرک نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان گنت اقسام کی مچھلیوں کے علاوہ بے شمار آبی جانور پانی میں تیرتے نظر آتے ہیں جہاں تک نباتات کا تعلق ہے ہنگول پارک میں بے شمار نایاب جڑی بوٹیاں ہر لمحہ مقامی طبیبوں اور علاقے کے باسیوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔
سیروسیاحت کے شائقین کہتے ہیں، اگر آپ جنگلی حیات کو قریب سے دیکھنے کے آرزو مند ہیں تو پاکستان میں ہنگول قومی پارک سے زیادہ موزوں اور کوئی جگہ نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس قومی پارک میں ایک خوبصورت جھیل بھی اس کے حسن میں اضافہ کرتی نظر آتی ہے جسے '' ہنگول جھیل ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
مٹی فشاں : یہاں کی ایک منفرد دریافت مٹی فشاں ہیں جو اب رفتہ رفتہ دریافت ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے بارے قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ زمانہء قدیم سے ہندو مت کے لئے مقدس جانے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک مٹی فشاں کا نام ہندو عقیدت مندوں نے '' چندر گپ ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ ہندو یاتری ابھی بھی دور دراز سے آ کر چڑھاوے کے طور پر اس میں ناریل ڈالتے رہتے ہیں۔
امید کی شہزادی : ہنگول پارک میں صدیوں سے چلتی آ رہی بڑی بڑی اور بلند و بالا پہاڑیاں اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہیں۔ ان پہاڑیوں نے جغرافیائی تبدیلیوں کے باعث اکثر مقامات پر انواع و اقسام کی قدرتی اشکال کا روپ دھار رکھا ہے۔ ایسے میں جب آپ کی نظریں انتہائی بلندی پر مغربی لباس میں ملبوس ایک خاتون کے مجسمے پر پڑتی ہیں تو آپ ششدر رہ جاتے ہیں۔ یہ مجسمہ جسے معروف اداکارہ انجلینا جولی نے 2004ء میں جب اپنے دورہء پاکستان میں پہلی مرتبہ دیکھا تو اس کے منہ سے بے اختیار '' پرنسس آف ہوپ ‘‘ نکلا۔ اسی دن سے اس پر کشش اور منفرد مجسمے کا نام '' امید کی شہزادی ‘‘ یا پرنسس آف ہوپ پڑ گیا۔
نانی ہنگلاج مندر : ہنگول پارک میں واقع ہنگلاج مندر ہندوؤں کا سب سے قدیم مندر ہے جس کے بارے تاریخ کی کتابوں میں سکندر اعظم کے جنرل موز کے حوالے سے پتہ چلا ہے جب اس نے ایک دفعہ یہاں کئی ہزار یاتریوں کو عبادت کرتے دیکھا تو اس نے کوئی مداخلت نہ کی۔ جس سے اس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ یہ اس سے بھی کہیں قدیم دور پہلے تک موجود تھا۔ موجودہ دور میں یہ ہندو مت کی ایک اہم عبات گاہ اور اہم مندر تصور ہوتا ہے ۔
کنڈ ملیر کا ساحل: ہنگول قومی پارک سے تھوڑا پہلے '' کنڈ ملیر‘‘ نامی ایک انتہائی خوبصورت ساحل ہے جو قدرتی مناظر اور دلفریب نظاروں سے مالا مال ہے۔ ہنگول قومی پارک کے پہاڑوں کے درمیان موجود پر کشش درخت وہاں کی خوبصورتی میں اور اضافہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان درختوں کے درمیان بل کھاتی ہنگول جھیل اس پارک کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی نظر آتی ہے۔
خاور نیازی
بشکریہ دنیا نیوز
Visit Dar-us-Salam PublicationsFor Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments