پنجاب کے ایک دیہات میں چچا خدا بخش ہوا کرتے تھے جن کو نیند بہت پسند تھی، اکثر سوئے رہتے۔ اول تو گھر کے کسی فرد میں ان کو نیند سے اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی اور اگر کوئی ہمت کر بھی لیتا تو چچا خدا بخش بہت مایوسی اور اکتائے ہوئے لہجے میں کہتے کہ کبھی نیند نہ پوری ہونے دینا۔ چچا خدا بخش اپنے پوتے سے بہت پیار کرتے تھے، جب کبھی اُن کو نیند سے فرصت ملتی تو بس اس کے ساتھ وقت گزارتے۔ ایک دن چچا خدا بخش کو ان کے پوتے نے نیند سے جگا دیا۔ خدا بخش کا غصے سے منہ لال پیلا تھا مگر لاڈلا ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے منہ پر مسکرائٹ لاتے ہوئے خاموشی اختیار کی۔ ’’بابا آپ سارا دن سوئے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں؟‘‘ ان نازک لبوں سے یہ آواز چچا خدا بخش کے کانوں میں رس گھولتی گئی۔ ’’بیٹا یہ بات ٹھیک ہے کہ میں سوتا بہت ہوں مگر یہ بھی تو شکر ادا کیا کرو کہ میں اٹھ جاتا ہوں۔‘‘
یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد تھا کہ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ سندھ پولیس کی نیند کھل گئی، ورنہ یہ تو عرصہ دراز سے لمبی تان کر سوئے ہوئے تھے۔ مگر اس ناچیز اور صحافت سے دور انسان کے دماغ میں ایک سوال ہے جو نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ بات نکلے گی تو پھر دور تک جائے گی۔ رات کے 2 بجے آئی جی سندھ کے گھر کا گھیراؤ کر کے ان کو اپنے ساتھ لے جانا اور 4 بجے تک ان کو مہمان بنانے کے بعد واپس خیر خیریت سے چھوڑ بھی دینا۔ اس اثناء میں ڈیموکریٹک موومنٹ کا کچھ اداروں پر الزام لگانا۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئی جی سندھ کو 2 بجے لے کر جانے اور پھر واپس چھوڑ کر جانے والوں کو کیا سندھ پولیس یا دیگر میڈیا نے نہیں دیکھا؟ اور اگر دیکھا تو وہ بہادری کا اعلیٰ مظاہرہ پیش کرتے ہوئے ان کا نام ہی بتا سکتے تھے۔ ممکن ہے آئی جی صاحب کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ہو۔ مگر یہ راز کی باتیں ہیں اور راز تو صرف خدا ہی جانتا ہے۔
ہم سب تو صرف ڈگڈگی آواز پر رقص کرنے والے بندر کا تماشا دیکھنے والے ہیں۔ مگر علی الصبح سندھ پولیس کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل عمران یعقوب منہاس کی غیرت چچا خدا بخش کی لمبی نیند کی طرح اچانک سے کھلی اور سندھ حکومت سے دو ماہ کی رخصت اس بنا پر طلب کر لی کہ تناؤ والی صورتحال میں ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب کراچی میں بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضٰی بھٹو پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے تو سندھ پولیس کے کسی افسر نے ایسا عمل سر انجام نہ دیا۔ چلیں دور کی بات چھوڑیئے، ماضی میں گئے تو یادیں تازہ ہو جائیں گی۔ وہ شاعر نے خوب کہا ہے ’’یاد ماضی عذاب ہے یا رب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘‘۔ 2012 میں جب ایک ماہ کے دوران 400 افراد کا قتل ہوا اور کراچی خون میں ڈوبا دکھائی دے رہا تھا، اس وقت بھی سندھ پولیس کے کسی افسر کی نیند نہیں کھلی۔ مگر وہی چچا خدا بخش والی بات کہ چلو شکر ہے نیند کھل تو گئی۔ مگر واقعی نیند کھلی ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح سندھ پولیس کی پشت پر سیاست کا ہاتھ پھیرا گیا ہے؟ اب یہ تو رپورٹ آنے پر ہی واضح ہو گا کہ سندھ پولیس کی غیرت تھی یا سیاست کا ہاتھ۔
محمد عرفان چانڈیو
بشکریہ ایکسپریس نیوز
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments