دنیا کے کئی ملکوں میں کورونا وائرس کے متاثرین میں ازسرنو اضافہ دیکھا جارہا ہے جس سے واضح ہے کہ اس عالمی وبا پر قابو پانے کی کوششیں اب تک کارگر ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ پاکستان میں بھی کیسوں میں مسلسل کمی کا جو رجحان جاری تھا وہ کسی قدر تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور امریکا میں کورونا کے کیسوں میں اضافے جبکہ بحیثیت مجموعی ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں کمی کا رجحان رہا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں بھی معمولات زندگی کی بڑی حد تک بحالی کے بعد کورونا کے نئے کیس سامنے آرہے ہیں۔ صورت حال کے جائزے میں اس نکتے کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے کہ متاثرین اور فوت ہونے والوں کی تعداد ضروری نہیں کہ اتنی ہی ہو جتنی سرکاری ریکارڈ پر ہے کیونکہ اس میں ٹیسٹ نہ کرانے والے لوگ شامل نہیں ہوتے جبکہ دو تہائی دیہی آبادی پر مشتمل اس ملک میں ایسے افراد کا بھی خاصی تعداد میں ہونا بالکل قرین قیاس بلکہ یقینی ہے۔
بہرحال ریکارڈ پر موجود معلومات کے مطابق وبا کی ملک میں آمد کے بعد سے اب تک اس سے متاثر ہونے والوں کی کل تعداد 3 لاکھ 13 ہزار اور اموات کی تعداد ساڑھے چھ ہزار تک پہنچی ہے۔ تقریباً تین لاکھ افراد صحت یاب ہو گئے ہیں۔ ملک بھر میں وینٹی لیٹر پر منتقل کئے گئے مریض سو سے کم ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت اور دنیا کے دوسرے کئی ملکوں کے مقابلے میں اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں یہ وبا بے لگام نہیں ہو سکی اور صورت حال قابو میں ہے لیکن کیسوں میں مسلسل کمی کے رجحان کا منفی طور پر بدلنا بہرصورت فوری توجہ کا طالب ہے۔ کراچی میں احتیاطی تدابیر ملحوظ نہ رکھنے والے شادی ہالوں، ریستورانوں اور اسکولوں کی بندش اور گاڑیوں کی ضبطی متعلقہ حکام کی ذمہ داری تھی اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اس پر شکوے شکایت کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ جب تک اس وبا کا شافی علاج دریافت اور اس سے عام استفادہ ممکن نہ ہو جائے اس وقت تک احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل درآمد ہی مسئلے کا حل ہے۔
ایسا نہ کرنے کا مطلب صرف اپنی ذات کو نہیں پورے معاشرے کو خطرے میں ڈالنا ہے جس کا سنگین جرم ہونا محتاج دلیل نہیں۔ جہاں تک مرض کے شافی علاج کا تعلق ہے تو عالمی سطح پر ادویات اور ویکسین کی تیاری کی خبریں تو بہت آتی رہی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر اس سمت میں اب تک کوئی واضح عملی پیش رفت نظر نہیں آئی۔ ایسا کیوں ہے؟ متعلقہ عالمی اداروں پر اس سوال کا اطمینان بخش جواب واجب ہے۔ بظاہر لگتا یہی ہے کہ ابھی خاصی مدت تک کورونا کا کوئی حتمی علاج عالمی سطح پر متعارف نہیں ہو پائے گا جس کی بناء پر ناگزیر ہے کہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے طویل المیعاد اور قابلِ عمل حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ احتیاطی تدابیر کی سختی سے پابندی اس کی بہرحال اولین شق ہونی چاہئے جبکہ زیادہ سے زیادہ کاموں کا آن لائن انجام دیا جانا اور اس کے لیے مزید تمام ممکنہ سہولتوں کا ہر سطح پر فراہم کیا جانا بھی اس میں لازماً شامل ہونا چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments