اٹھارہ جون 2020 کو بھارت ایک بار پھر اقوامِ متحدہ میں سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست کے لیے بھاری ووٹ لے کر منتخب ہو گیا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے اچھا نہیں ہُوا۔ بھارت یکم جنوری2021 سے 31 دسمبر 2022 تک یو این سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب رہے گا۔ اس سے قبل بھی وہ سات بار اسی نشست کے لیے منتخب ہو چکا ہے ۔ اُس کی نظریں دراصل سلامتی کونسل کی مستقل نشست پر ہیں تاکہ وہ امریکا ، چین ، رُوس، فرانس اور برطانیہ ایسے ویٹو کی طاقت رکھنے والے ممالک کا ہم پلّہ بن کر جنوبی ایشیا کا تھانیدار بن سکے۔ ابھی مگر یہ نوبت نہیں آنے والی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھارت کو سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن منتخب ہونے دینا اس کے ظالمانہ اقدامات کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ عنوانات سے پہلے ہی لگ رہا تھا کہ بھارت یہ نشست لے جائیگا۔ شاید اسی لیے انتخاب سے قبل ہمارے وزیر خارجہ ، شاہ محمود قریشی، سے منسوب ایک بیان یوں شایع ہُوا :’’ اگر بھارت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بن بھی گیا تو کوئی آسمان نہیں گر پڑے گا۔‘‘ اس بیان کو وطنِ عزیز میں پسند نہیں کیا گیا ۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی طرف سے اس بارے ناپسندیدگی کا پہلا ردِ عمل آیا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا:’’ آخر کار بھارت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہو گیا ہے۔ اُسے 193 ارکان میں سے 184 ووٹ ملے ہیں۔ یہ پاکستان کے لیے سوال ہے کہ ہم نے ایسا کیوں ہونے دیا ؟ خطے سے بھارت کے مقابلے میں اور کوئی ملک کیوں نہیں تھا؟ پاکستان، بھارت کی بہت پہلے کی گئی نامزدگی پر راضی کیونکر ہوا؟ سب سے پریشان کن معاملہ بھارت کا اتنی تعداد میں ووٹ حاصل کرنا بھی ہے۔ یہ صرف’’ آسمان نہیں گرے گا‘‘ کا معاملہ نہیں ہے۔ اِس وقت جب بھارت نے ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں مظالم جاری کر رکھے ہیں اور پاکستان پر آئے دن حملے کر رہا ہے تو دوسری جانب بھارت نے چین اور نیپال کے ساتھ بھی تنازعات چھیڑ رکھے ہیں تو ایسے میں بھارت کو بلا مقابلہ جیتنے دینا ظالم کے ظلم کو تسلیم کیے جانے کے مترادف ہے۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں اقدامات عالمی قوانین اور خود یو این سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہیں‘‘۔
شیریں مزاری نے مزید کہا: ’’ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ بھارت سلامتی کونسل کا (غیر مستقل) ممبر تحریکِ انصاف کی حکومت میں بنا ہے، ان کے لیے اطلاع ہے کہ یہ نامزدگی 2013 میں ہوئی تھی اور میں نے اُس وقت بھی تنقید کی تھی‘‘۔ ہمارے دانشمند وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب مگر اپنی بات پر اڑے ہُوئے ہیں ۔ 20 جون بروز ہفتہ اُن کا اِسی ضمن میں ایک بیان یوں سامنے آیا:’’سلامتی کونسل میں اگر ہم بھارت ( کی رکنیت) کو روکتے تو 2026 میں ہماری ممبر شپ کا امکان کم ہو جاتا۔‘‘ سننے والا عام پاکستانی تو حیرت میں ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست کے لیے بھارت کا انتخاب ایسے ایام میں ہُوا ہے جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی زیادتیاں اور ظلم عروج پر ہیں ۔ خاص طور پر ایسے ایام میں جب بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی عمارت کا گھیراؤ کر کے عالمی سفارتی اخلاقیات کی توہین کی ہے۔
اس ضمن میں بھارت نے پہلے نئی دہلی میں متعین پاکستان کے دو سفارتکاروں کو بغیر کسی ثبوت کے گرفتار کیا ، اُن کی توہین بھی کی اور اُن پر نہایت شرمناک بہتان بھی عائد کیے۔ بھارت نے نہ صرف ان پاکستانی سفارتکاروں کو ہراساں کیا بلکہ انھیں Persona Non Grata قرار دے کر ملک سے نکال دیا ۔ یہ بات یہیں نہیں رُکی بلکہ اس سانحے کے بعد اسلام آباد میں دو بھارتی سفارتکاروں نے تیز رفتاری سے ایک پاکستانی شہری کو کچل بھی دیا اور جب انھیں گرفتار کیا گیا تو اُن کے قبضے سے جعلی پاکستانی کرنسی بھی برآمد ہُوئی۔ ایسے ماحول میں اسی بھارت کا اقوامِ متحدہ کی غیر مستقل نشست کے لیے دو سال کے لیے منتخب ہونا سب کو حیرت میں مبتلا کر گیا ہے ۔ غیر جانبدار عالمی تجزیہ نگاروں کی اس بات کو نظر انداز کرنا دشوار ہے کہ اس نشست پر براجمان ہونے کے بعد یو این او میں پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائیوں میں تیزی اور شدت آ سکتی ہے ۔
تنویر قیصر شاہد
بشکریہ ایکسپریس نیوز
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments