آٹا اور چینی کے مصنوعی بحران پاکستان میں کوئی نئی چیز نہیں۔ ہم ان سے بار ہا دوچار ہو چکے ہیں اور ہر بحران کے بعد اِن بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں مستقل اضافہ معمول کا حصہ بنا رہا ہے۔ حکومتوں کا طریق کار عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ان ناگزیر اشیائے صرف کی مصنوعی نایابی پر جب عوام میں اضطراب بڑھتا ہے تو تحقیقات کی یقین دہانیاں کرا کے احتجاج کی روک تھام کا بندوبست کر لیا جاتا ہے جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ یا تو قیمتوں میں اضافے کو قبول کر لیتے ہیں یا ان میں معمولی کمی کے ذریعے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عوام کا احتجاج رائیگاں نہیں گیا اور یوں نفسیاتی طور پر ان کی تسکین کا اہتمام کر دیا جاتا ہے۔ بھاری منافع کی وجہ سے شوگر ملیں خاص طور پر ملک کے مقتدر طبقوں کی توجہ کا مرکز بنیں اور اس کاروبار میں نہایت بااثر سیاسی خاندان شامل ہوتے چلے گئے۔ ہر سال دو سال بعد چینی کے مصنوعی بحرانوں پر قابو پانے میں ناکامی کی اصل وجہ بھی یہی رہی۔
موجودہ دورِ حکومت میں بھی چینی کے مصنوعی بحران نے سراٹھایا تو وزیر اعظم نے فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے معاونِ خصوصی برائے احتساب کی سربراہی میں شوگر بحران کی تحقیقات کیلئے ایک بااختیار کمیشن تشکیل دیا جس نے مستقل بنیادوں پر مسئلے سے نمٹنے کے لیے اہم تجاویز کے ساتھ اپنی رپورٹ مقررہ مدت میں پیش کر دی۔ اس رپورٹ کو جس وجہ سے خاص طور پر معتبر سمجھا گیا وہ یہ تھی کہ بحران کے ذمہ داروں کی حیثیت سے اس میں محض اپوزیشن کی نہیں بلکہ حکمراں جماعت اور حکومت کی اتحادی جماعتوں کی اہم اور حکومتی مناصب رکھنے والی شخصیات کے نام بھی شامل تھے؛ تاہم غیر حکومتی شوگر مل مالکان نے اس رپورٹ کی بنیاد پر کارروائی رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور بنیادی آئینی حقوق کے تقاضوں کے تحت عدالت نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے عارضی حکم امتناع جاری کر دیا جس پر وزیراعظم نے یہ شکوہ بھی کیا کہ عدالت کا یہ حکم شوگر مافیا کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ بن گیا ہے
لیکن گزشتہ روز جب اس معاملے کی سماعت آگے بڑھی اور درخواست گزاروں اور حکومت دونوں کا موقف اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں پیش کیا گیا تو فاضل جج نے شوگر کمیشن کی رپورٹ کے خلاف سیاسی مخالفین سے انتقام اور تعصب کے الزام کو اس بنیاد پر مسترد کر دیا کہ اس میں خود حکومتی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، اقتدار میں شریک حکومت کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں اور وزیراعظم کے دوستوں کے نام شامل ہیں۔ عدالت نے رپورٹ کے خلاف درخواست گزاروں کی تشویش پر معاملے کے اس کلیدی اہمیت کے حامل پہلو کی نشاندہی بھی کہ مل مالکان تو وہ لوگ ہیں جنہیں حکومتی پالیسیوں سے فائدہ پہنچا لہٰذا حقیقتاً اس رپورٹ کو ان حکومتی ذمہ داروں کے لیے فکر مندی کا باعث ہونا چاہیے جنہوں نے یہ پالیسیاں بنائیں اور نافذ کیں۔
فاضل جج نے انہی دلائل اور حقائق کی بنا پر شوگر کمیشن کی رپورٹ پر جاری کیے گئے حکم امتناع کو ختم کرنے کا فیصلہ سنایا اور حکومت کو رپورٹ کے مطابق ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی اجازت دی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں رپورٹ کی تجاویز پر عمل درآمد کو بالکل درست طور پر حکومت کا امتحان قرار دیا ہے کیونکہ شوگر کمیشن نے ملک میں چینی کے حالیہ بحران اور مہنگائی کا اصل سبب چینی کی قلت کے خدشے کے باوجود اس کی برآمد کی اجازت اور شوگر ملوں کو سبسڈی دینے کے حکومتی فیصلوں کو قرار دیا ہے۔ ان فیصلوں کی ذمہ دارشخصیات کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکا تو یہ یقیناً ایک بڑا کارنامہ ہو گا اور قومی زندگی پر اس کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوں گے بصورت دیگر یہ دور بھی ویسا ہی ایک دور قرار پائے گا جس میں طاقتوروں اور کمزوروں کیلئے قانون الگ الگ ہوتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments