Pakistan

6/recent/ticker-posts

پاکستان میں چینی اسکینڈل کا ذمہ دار کون ہے؟

وفاقی حکومت نے چینی کی قلت کے اسیکنڈل کے مجرموں کو اپنے اور پرائے کی تمیز کیے بغیر بے نقاب کرنے کے لیے جو شوگر انکوائری کمیشن بنایا تھا اس کی اب تک کی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ شوگر انڈسٹری میں بدعنوانی اور ہیرا پھیری اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی بتائی جاتی ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق کمیشن نے سینکڑوں ارب روپے کی بے نامی خریداری کرنے والے 3 ہزار بروکرز اور آڑھتیوں کے علاوہ ایسے 50 ہزار غیر رجسٹرڈ خریداروں کا بھی پتا لگایا ہے جن میں سے 40 ہزار نے ٹیکس ریٹرنز بھی جمع نہیں کرائے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب کمیشن نے 362 ارب روپے کے مشکوک بے نامی لین دین کا سراغ لگایا جو گزشتہ 5 سال میں 6 ملین میٹرک ٹن چینی کی فروخت کا نتیجہ ہے۔ 

ایک سروے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے شک پیدا ہوا کہ 9 ملوں نے سینکڑوں بروکرز اور آڑھتیوں کے ذریعے کھاتوں میں اندراج کے بغیر ہی گنا خریدا اور مارکیٹ سپلائی میں ہیرا پھیری کی۔ ان میں سے ایک شوگر مل نے 31 ہزار غیر رجسٹرڈ خریداروں کو چینی فروخت کی اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے 213 ملین روپے کی سبسڈی وصول کی۔ اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث مل مالکان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی بعض بااثر شخصیات شامل ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ 16 ماہ کے دوران چینی کی قیمتیں 23 سے 27 روپے فی کلو بڑھا کر صارفین کی جیبوں سے 120 ارب روپے ہتھیا لیے گئے مگر اس غیر قانونی منافع خوری کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مل مالکان نے 5 سال میں براہِ راست کوئی انکم ٹیکس نہیں دیا جو خود ایک جرم ہے۔

اسٹیٹ بینک کے ایک ذریعے کے مطابق بعض نے تو خسارہ ظاہر کر کے تقریباً 8 ارب روپے کے ریفنڈ بھی حاصل کر لیے۔ عوام انتظار کر رہے تھے کہ 25 اپریل کو چینی اسکینڈل کے بڑے بڑے مجرم بے نقاب ہوں گے اور ان کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا اور شوگر انکوائری کمیشن کی تجویز پر اسے مزید تین ماہ کی مہلت دے دی گئی۔ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ مزید تحقیقات سے چینی کی خرید و فروخت میں بدعنوانی، عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کے اصلی مجرموں کا سراغ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔ آٹے اور چینی کی غیر متوقع قلت کا اسیکنڈل پوری قوم کے لیے تکلیف دہ تھا۔ وزیر اعظم نے اس کا بروقت نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کمیشن قائم کیا جو اپنا کام کر رہا ہے اور اپوزیشن نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس کے نمائندوں کو کمیشن میں پیش ہوکر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کا موقع دیا جائے، ان کی بات سننا بھی ضروری ہے۔ 

اب جبکہ کمیشن کو تحقیقات کے لیے مزید تین ماہ دے دیے گئے ہیں تو مناسب ہو گا کہ معاملے کے تمام پہلوئوں پر تفصیلی غور و فکر کیا جائے تاکہ اس حوالے سے عام آدمی کا اعتماد بحال ہو سکے۔ عام طور پر مل مالکان ظاہری کھاتوں میں دکھاتے کچھ اور ہیں اور اصل میں کچھ اور ہوتا ہے، وہ مڈل مین کے ذریعے من چاہا منافع کما لیتے ہیں جو مارکیٹ اکانومی کا کرتا دھرتا ہے جبکہ معیشت کے مفاد میں ضروری ہے کہ شفاف تحقیقات کے ذریعے ایسی تمام خرابیوں اور ان کے ذمہ داروں کی نشاندہی کر کے اصلاحِ احوال کی تدابیر اختیار کی جائیں تاکہ ایمانداری سے کاروبار کرنے اور ہیرا پھیری سے منافع کمانے والوں میں امتیاز نظر آئے۔ ایسا نہ ہو کہ بے ایمان آنکھوں میں دھول جھونک کر بچ جائے اور ایماندار صاف ستھرا ہو کر بھی سزا پائے۔ آٹے اور چینی کے اسکینڈل میں حقیقی مجرموں تک پہنچنا انکوائری کمیشن کی بہت بڑی ذمہ داری ہے جس کے لیے اسے مزید مہلت دینا مناسب ہے۔ اس کی جامع رپورٹ آئندہ اس طرح کے مسائل پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments