Pakistan

6/recent/ticker-posts

دلی پولیس کا برتاؤ ایسا ہے جیسے جامع مسجد پاکستان میں ہو

دلی کی ایک عدالت نے دلتوں کی تنظیم بھیم آرمی کے رہنما چندرا شیکھر آزاد کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران کہا کہ لوگ سڑکوں پر اس لیے ہیں کیونکہ پارلیمان میں شہریت کے قانون کے بارے میں جو کہا جانا چاہیے تھا وہ نہیں کہا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج کامنی لاؤ نے کہا کہ ’دلی پولیس کا برتاؤ ایسا ہے جیسے جامع مسجد پاکستان میں ہو۔ اگر پاکستان میں ہوتی بھی تو کسی کو بھی وہاں احتجاج کرنے کا حق ہے۔‘ عدالت کے یہ ریماکس بھیم آرمی کے رہنما چندرا شیکھر آزاد کی ضمانت کی درخواست کے دوران سامنے آئے۔ انڈیا کے متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کے دوران دلی کے دریا گنج علاقے سے چندر شیکھر کو گرفتار کیا گیا تھا۔

چندر شیکھر آزاد نے جامع مسجد کی سیڑھیوں سے آئین کی شق پڑھنے اور اس کے بعد جنتر منتر تک مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جج نے کہا کہ ’پارلیمان میں جو باتیں واضح طور پر کہی جانی چاہیے تھیں وہ نہیں کہی گئیں، لوگ اس لیے سڑکوں پر ہیں۔ ہمارے پاس اپنی بات کہنے کا پورا حق ہے، لیکن ہم ملک کو تباہ نہیں کر سکتے۔‘ عدالت نے تفتیش کرنے والے اہلکاروں سے کہا کہ پولیس آن ریکارڈ وہ تمام ثبوت پیش کرے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جامع مسجد میں جمع ہونے والے افراد کے مابین چندرا شیکھر لوگوں کو بھڑکانے والی تقریر کر رہے تھے، اور کوئی بھی ایسا قانون بتائے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کا وہاں جمع ہونا غیر قانونی تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے کوئی ثبوت دکھائیے یا کسی قانون کا ذکر کیجیے جس میں لوگوں کے اس طرح ایک جگہ جمع ہونے کے عمل کو غلط قرار دیا گیا ہو۔ تشدد کہاں ہوا ؟ کون کہتا ہے کہ احتجاجی مظاہرے نہیں ہو سکتے؟ کیا آپ نے آئین پڑھا ہے؟ احتجاجی مظاہرہ ہر شخص کا آئینی حق ہے۔‘ عدالت نے یہ بھی کہا کہ چندرا شیکھر آزاد کے پاس قانون کی ڈگری ہے۔ وہ عدالت کے اندر بھی احتجاجی مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ عدالت نے بی آر امبیدکر سے متاثر چندرا شیکھر کے خیالات کا بھی ذکر کیا۔ عدالت نے تفتیش کرنے والے اہلکاروں سے کہا کہ پولیس آن ریکارڈ وہ تمام ثبوت پیش کرے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جامع مسجد میں جمع ہونے والے افراد کے مابین چندرا شیکھر لوگوں کو بھڑکانے والی تقریر کر رہے تھے، اور کوئی بھی ایسا قانون بتائے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کا وہاں جمع ہونا غیر قانونی تھا۔

سماعت کے دوران پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ان کے پاس بطور ثبوت ڈرون کیمرے سے لی جانے والی تصاویر ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور ریکارڈنگ نہیں ہے۔ اس پر جج نے کہا کہ ’کیا آپ کو لگتا ہے کہ دلی پولیس اتنی پسماندہ ہے کہ اس کے پاس ریکارڈنگ کے آلات نہیں ہیں؟‘ انھوں نے کہا کہ ’مجھے کوئی ثبوت دکھائیے یا کسی قانون کا ذکر کیجیے جس میں لوگوں کے اس طرح ایک جگہ جمع ہونے کے عمل کو غلط قرار دیا گیا ہو۔ تشدد کہاں ہوا؟  کون کہتا ہے کہ احتجاجی مظاہرے نہیں ہو سکتے؟ کیا آپ نے آئین پڑھا ہے؟ احتجاجی مظاہرہ ہر شخص کا آئینی حق ہے۔‘ عدالت نے یہ بھی کہا کہ چندرا شیکھر آزاد کے پاس قانون کی ڈگری ہے۔ وہ عدالت کے اندر بھی احتجاجی مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ 

عدالت نے بی آر امبیدکر سے متاثر چندرا شیکھر کے خیالات کا بھی ذکر کیا ۔  شہریت کے نئے قانون کے خلاف بھیم آرمی نے بیس دسمبر کو دلی کی جامع مسجد سے جنتر منتر تک مارچ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے لیے پولیس سے اجازت نہیں لی گئی تھی۔ اس معاملے میں گرفتار دیگر پندرہ افراد کو ضمانت دے دی گئی تھی۔ دلی کی ایک عدالت نے چندرا شیکھر آزاد کی بگڑتی ہوئی صحت دیکھتے ہوئے انہیں علاج کے لیے دلی کے ایمس ہسپتال میں داخل کرانے کا حکم دیا تھا۔  اس پر دلی پولیس نے اعتراض کا اظہار کیا تھا۔ عدالت نے اس اعتراض پر سوال کیا تھا کہ ’کیا جیل مینوئل میں کوئی ایسی گنجائش ہے جس کے تحت انہیں ایمس نہیں لے جایا جا سکتا؟‘

بشکریہ بی بی سی اردو

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments