Pakistan

6/recent/ticker-posts

کیا ہندوستان بدل رہا ہے؟

تبدیلی کوئی بری چیز نہیں اگر اس کا مقصد وقت کے تقاضوں کو پورا کرنا ہو، نئے چیلنجوں سے نمٹنا ہو یا پھر ٹیکنالوجی کے ساتھ نئی سوچ کو ہم آہنگ بنانا ہو۔ اگر سوچ بدلنے کا مقصد ملک میں اقلیتوں کو ہراساں کرنا ہو، انہیں اپنی کمتری کا احساس دلانا ہو اور انہیں ایک خاص سانچے میں ڈال کر ان پر ایک لیبل چسپاں کر کے ڈرانا یا دھمکانا ہو تو اس کو بدلاو کہنا صیح نہیں بلکہ اس کو ایک ایسی پالیسی کے نفاذ سے تعبیر کرنا چاہیے جس کا مقصد اکثریت کی بالادستی اور اقلیت کی پستی قائم کرنا ہے۔ دنیا بدل رہی ہے، قومیں بدل رہی ہیں، تاج و تخت تغیر پذیر ہو رہے، امرا اور غربا میں خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے مگر موجودہ دور میں جس طرح سے مسلمانوں کو بدلا جا رہا ہے اس کی نظیر شاید تاریخ میں نہیں ملتی۔ 

وہ چاہے مشرق وسطیٰ ہو جہاں عراق سے لے کر شام تک مسلمانوں کی بستیاں، ادارے اور حکومتیں زمین بوس ہو رہی ہیں یا افغانستان سے لے کر برما تک لاکھوں مسلمان ہلاک ہو رہے ہیں، بےگھر کئے جا رہے ہیں۔ بعض مفتیوں کی اس رائے پر یقین کرنا مشکل نہیں ہوتا کہ جیسے پوری دنیا مسلمانوں کی دشمن بن چکی ہے۔ حالانکہ ہمیں اس کا بھی احساس ہونا چاہئے کہ خود مسلمان بھی اپنی پستی حالت کے ذمہ دار ہیں۔ اب بھارت کی مثال لیجے جہاں مسلمان تقسیم ہند کے بعد سے ہی اپنی زندگی مشکلات میں بسر کر رہے تھے لیکن اب نہ صرف وہ شدید مشکلات سے دوچار ہیں بلکہ موجودہ حالات میں ہر لمحہ زندگی اور موت سے لڑ رہے ہیں۔

ہندوستان میں آج کل مسلمانوں کی خوراک بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کبھی ان کی پوشاک پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، کبھی ان کی نماز نشانہ بن رہی ہے، تو کبھی ان کے مدرسے عتاب سے گزر رہے ہیں۔ غرض ہر مسلمان غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ جہاں انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ بھارت میں آباد تقریبا بیس کروڑ مسلمان ہندتوا کی بڑھتی تحریک سے خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں اور آئے دن کے حملوں سے دہشت کا شکار ہو رہے ہیں۔
کبھی کسی مسلمان کو سر راہ پکڑ کر جے شری رام کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، کبھی پارلیمان میں مسلم اراکین کی تقریر کے وقت ’وندے ماترم‘ کے نعرے بلند کے جاتے ہیں تو کبھی ’لو جہاد‘ کے نام پر مسلمان لڑکوں کو جیل میں بند کیا جاتا ہے۔ اب حالت یہ ہونے لگی ہے کہ مسلمان اپنا نام کہنے سے بھی ڈر رہے ہیں۔

ملک میں جاری اس لہر سے مسلمان اور دوسری اقلیتیں انتہائی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان کی نہ کوئی قیادت ہے، نہ کوئی آواز اور نہ کوئی ملک اُف کر رہا ہے۔ ہر کوئی ان سے لاتعلق سا محسوس کر رہا ہے۔ تبدیلی کوئی بری چیز نہیں اگر اس کا مقصد وقت کے تقاضوں کو پورا کرنا ہو، نئے چیلنجوں سے نمٹنا ہو یا پھر ٹیکنالوجی کے ساتھ نئی سوچ کو ہم آہنگ بنانا ہو۔ اگر سوچ بدلنے کا مقصد ملک میں اقلیتوں کو ہراساں کرنا ہو، انہیں اپنی کمتری کا احساس دلانا ہو اور انہیں ایک خاص سانچے میں ڈال کر ان پر ایک لیبل چسپاں کر کے ڈرانا یا دھمکانا ہو تو اس کو بدلاو کہنا صیح نہیں بلکہ اس کو ایک ایسی پالیسی کے نفاذ سے تعبیر کرنا چاہیے جس کا مقصد اکثریت کی بالادستی اور اقلیت کی پستی قائم کرنا ہے۔

ہندوستان میں آج کل مسلمانوں کی خوراک بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، کبھی ان کی پوشاک پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، کبھی ان کی نماز نشانہ بن رہی ہے، تو کبھی ان کے مدرسے عتاب سے گزر رہے ہیں۔ غرض ہر مسلمان غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ جہاں انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ بھارت میں آباد تقریبا بیس کروڑ مسلمان ہندتوا کی بڑھتی تحریک سے خود کو انتہائی غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں اور آئے دن کے حملوں سے دہشت کا شکار ہو رہے ہیں۔کبھی کسی مسلمان کو سر راہ پکڑ کر جے شری رام کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے، کبھی پارلیمان میں مسلم اراکین کی تقریر کے وقت ’وندے ماترم‘ کے نعرے بلند کے جاتے ہیں تو کبھی ’لو جہاد‘ کے نام پر مسلمان لڑکوں کو جیل میں بند کیا جاتا ہے۔ اب حالت یہ ہونے لگی ہے کہ مسلمان اپنا نام کہنے سے بھی ڈر رہے ہیں۔ملک میں جاری اس لہر سے مسلمان اور دوسری اقلیتیں انتہائی ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان کی نہ کوئی قیادت ہے، نہ کوئی آواز اور نہ کوئی ملک اُف کر رہا ہے۔ ہر کوئی ان سے لاتعلق سا محسوس کر رہا ہے۔

نعیمہ احمد مہجور 

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments