ملک میں ہر طرف غربت کا راج ہے۔ غریب عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ افراط زر میں بے تحاشہ اضافہ یہ شعور بیدار کرتا ہے کہ وہ ایک آزا د ملک میں غلام ہیں۔ عوام دیکھتے ہیں کہ حکومت معاشی پالیسیوں میں بے لچک ہے اور وہ آئی ایم ایف کی خواہش پر عوام کی زندگی اجیرن کر رہی ہے۔ آئی ایم ایف مالی امداد دینے والا ادارہ ہے جو دنیا بھر کے ممالک کو سود پر قرضے مہیا کرتا ہے۔ لہذا وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ مقروض ممالک خوش حال، معیشت میں خود انحصار ہوں، کیوں کہ اس کے نتیجے میں اس کا سودی کاروبار بند ہو جائے گا۔ اس لیے وہ ہمیشہ ایسی معاشی اصلاحات ان ممالک کو بنا کر دیتا ہے، جس پر مقامی عوامی نمائندے بند آنکھوں سے عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔
بڑھتی مہنگائی سے حکومتی معاشی پالیسیوں کی قلعی کھلتی جارہی ہے۔ حکومت ہر دن عوام کو ملک کے اہم ترین اداروں میں بہتری کی نوید سناتی ہے، لیکن جانے یہ کیسی سچائی ہے جو حکومت کو تو دکھائی دیتی ہے مگرعوام کو نظر نہیں آتی۔ ملک بھر میں تاجروں کے حکومت سے مذاکرات ناکام ہوئے جس پر وہ ہڑتال کرنے پر مجبور ہو گئے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا کاروباری حجم سات سال کی کم ترین سطح پر ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ ڈالر کی اڑان بلند ہو رہی ہے۔ پرانے کیسز میں جرمانے ہو رہے ہیں۔ حکومت ایک طرف تو معاشی پالیسیوں میں تبدیلی کی بات کرتی ہے ، تو دوسری جانب آئی ایم ایف کی ایما پر مہنگائی میں مسلسل اضافہ اور کاروباری افراد پر ٹیکس لگائے جارہی ہے۔
گھریلو مصارف میں روز مرہ استعمال ہونے والی اشیاء عوام کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ بجلی اور گیس کے بل بھرنا متوسط اور غریب طبقے کے ماہانہ بجٹ سے باہر ہو گیا ہے۔ توانائی اور سکیورٹی کے شعبے زوال در زوال کی کھائی میں جارہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے سے کم آمدنی والے نوکری پیشہ افراد نے موٹر سائکلیں گھر پہ کھڑی کر دی ہیں۔ آئی ایم ایف اپنی رپورٹ میں واضح کہہ چکا ہے کہ 6 ارب ڈالر قرض کے بدلے حکومت عوام سے مختلف ٹیکسوں کی صورت میں پیسہ نکالے اور دی جانے والی مراعات میں کمی کرے۔ حکومت امیروں اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے تو ایمنسٹی اسکیم لے آتی ہے، لیکن غریب طبقے کے لیے اس کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں۔
یہاں تک کہ بجٹ میں بھی عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں سے کٹوتیاں کی گئی ہیں۔ یہ اقدامات حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان طے پانے والے قرض کے سمجھوتوں کا اہم ترین حصہ تھے، جس کی وجہ آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر قرض دیا۔ یہ پہلی گورنمنٹ نہیں جو آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی حکومتوں نے اپنے دوراقتدار میں آئی ایم ایف کی گنگا سے خوب سیر ہو کر قرض لیا، لیکن موجودہ حکومت کا ریکارڈ سابقہ حکومتوں سے منفرد ہے۔ اس لیے کہ اس حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے عوام سے کئی وعدے کیے تھے اور کہا تھا کہ ملک کی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے۔ مگر جب اسے اقتدار ملا تو عوام سے منھ پھیر کر اپنے وعدوں سے یو ٹرن لے کر آئی ایم ایف کی زبان بولنے لگی، کیوں کہ یہ آئی ایم ایف کی خواہش تھی۔
حالت یہ آ پہنچی کہ گزشتہ ایک سال میں اس کے بڑے بڑے معاشی ٹارزن فیل ہو چکے ہیں۔ روپیہ ملکی تاریخ کی پست ترین سطح پر ہے۔ شرح سود میں ریکارڈ اضافہ کیا گیا ہے۔ معیشت پٹڑی پہ کیا چڑھتی، الٹا لوگوں کے کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ ایمنسٹی اسکیم جو پہلے گناہ کبیرہ تھی اب گناہ صغیرہ بھی نہیں سمجھی جا رہی ہے۔ بجٹ خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے برابر ہو چکا ہے، جب کہ زر مبادلہ کے ذخائر مشکل سے آٹھ ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اس کے بعد بھی آئی ایم ایف کو ترس نہ آیا اور اس نے بزور افرادی قوت (بقول اپوزیشن: اہم ترین اداروں کی باگ آئی ایم ایف کے منظور نظر افراد کے ہاتھوں میں ہے) کہہ دیا ہے کہ حکومت پاکستان، پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے کی نجکاری پر ہونے والے باہمی اتفاق رائے پر فوری عمل کرے۔
آئی ایم ایف نے ان قومی اداروں کی نجکاری پر سہانے خواب دکھائے ہیں کہ اگر حکومت پاکستان عوام کو راضی کر کے ہماری اصلاحات پر عمل کرے تو دنیا بھر کے مالیاتی اداروں سے مزید 38 ارب ڈالر قرضے ملیں گے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ سرِ تسلیمِ خم کر کے میری پالیسیوں پر تسلسل اور خاموشی سے عملدرآمد کرو۔ حالات و نظائر سے لگتا یہی ہے کہ کم از کم ا س معاملے میں حکومت یوٹرن نہیں لے گی اور عوام کا تیل نکال کر پیالے بھر بھر کر آئی ایم ایف کو پیش کرے گی۔
محمد عنصر عثمانی
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments