آج کے عام آدمی کے ذہن میں یہی سوال بار بار ابھرتا ہے کہ وہ ٹیکس کیوں دے ؟حال ہی میں ہمارے منتخب وزیراعظم نے قوم سے ٹیکس دینے کی اپیل کی اور ساتھ یہ بھی کہا جب تک بھرپور طریقے سے ٹیکس ادا نہیں کریں گے تب تک پاکستان قرضوں کی دلدل سے نہیں نکل سکتا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاست کا نظام چلانے کے لیے حکومت کو خطیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس کا ایک بڑا حصہ ٹیکس سے اکٹھا کرتی ہے، لہٰذا عوام کا بھی فرض عین ہے کہ وہ ریاست کا نظام بہتر انداز میں چلانے کے لیے ٹیکس ادا کریں۔ وزیر اعظم کی مخلصانہ اپیل سر آنکھوں پر مگرعام آدمی کے دل میں شک وشبہات بہرحال موجود ہیں۔ جب ایک عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ اس کی بنیادی ضروریات بھی حکومت پوری نہیں کر رہی تو آخروہ ٹیکس کیوں ادا کرے ؟
مثال کے طورپر کون نہیں جانتا کہ آپ سرکاری اسپتال اسکول میں چلے جائیں تو آپ سے کس قسم کا برتائو کیا جاتا ہے اور کس درجے کی سہولیات موجود ہیں؟ شاید ہی کوئی کھاتا پیتا شخص سرکاری اسپتال میں جا کر اپنا علاج کرانا پسند کرے یا کوئی صاحب حیثیت شخص اپنے بچوں کو سرکاری اسکول بھیجے اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں اور کالجز میں داخلے کے لیے میرٹ اتنا زیادہ ہے کہ بہت سارے بچے وہاں داخلہ لینے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ غربت کی وجہ سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول بھی نہیں بھیج پاتے۔ کچھ دانشور مغربی یورپ کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں پر عوام اپنی آمدن کا نصف حصہ ٹیکس ادا کرتے ہیں آخرکار پاکستانی شہری ایسا کیوں نہیں کر سکتے ؟
دراصل مغربی یورپ کے اندر بیشک ٹیکس بہت زیادہ ہے لیکن وہ ایک واضح مکمل ویلفیئر ریاستیں ہیں پچھلے سال دنیا کے مایاناز پولیٹیکل اسکالر ٹام چومسکی سے ملاقات ہوئی۔ ان سے پوچھنے پر کہ کونسا ملک بہترین ریاست کا نمونہ ہے تو وہیں پر انھوں نے بتایا کہ ویسٹرن یورپ کے بہت سے ممالک اور بالخصوص ناروے اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ تو آپ دیکھیں تو ناروے یا ڈنمارک جیسے ممالک کے اندر عوام کو صحت ، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بہترین سہولتیں میسر ہیں ۔ اسی طرح اگر آپ امریکا جائیں تو وہاں پر سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے معیار میں فرق کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے مثال کے طورپر دنیا کی مایاناز ہارورڈ اور برکلے یونیورسٹی ہیں جہاں سے مجھے خود تعلیم حاصل کرنے کا شرف ملا۔ امریکا میں یہ دنیا کی دو مایاناز یونیورسٹیاں ہارورڈ اور برکلے موجود ہیں ۔
یہ ہارورڈ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ہے جب کہ برکلے ایک سرکاری یونیورسٹی ہے لیکن اگر آپ دونوں میں تعلیم حاصل کر کے دیکھیں توشاید ہی کوئی بال برابر فرق دونوں میں ہو جب کہ بہت سارے معاملات میں برکلے یونیورسٹی ہارورڈ سے سبقت لے جاتی ہے ۔ کیا ایسا ہمارے ملک میں بھی ہوتا ہے ؟ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں میں دن بدن معیار گرتا چلا جا رہا ہے۔ ہماری چند سرکاری یونیورسٹیاں ابھی بھی اچھا تعلیم کا معیار چند شعبوں میں رکھتی ہیں مثلاً آج بھی پنجاب یونیورسٹی پنجاب میں نسبتاً اچھی سمجھی جاتی ہے لیکن اس کے اندر بھی بہت سارے ایسے شعبے ہیں جن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ روز بروز اسی طرح ہمارے بہت سارے سرکاری تعلیمی ادارے تنزلی کا شکارہیں۔ ایسی صورتحال ہمارے اسپتالوں کی ہے جنوبی پنجاب کے آپ نشتر اسپتال چلے جائیں تو وہاں پر آپکو دل دہلا دینے والے مناظر دکھائی دینگے ۔ وہاں پر اکثر آپ کو مریض اپنی ہی ڈرپ خود ہاتھ میں پکڑے ہوئے دکھائی دینگے اور ساتھ میں ضروری ادویات کامیسر نہ ہونا اب ایک عام بات بن چکی ہے۔
اسی طرح زیادہ ترسرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرحضرات شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر موٹی فیس لے کر علاج کرتے ہیں۔ آپ خود سوچیے جب ایک طرف انھیں موٹے پیسے مل رہے ہوں تو وہ کس طرح سے اپنے سرکاری اسپتال میں اپنے فرائض کے اوپر توجہ دیں سکتے ہیں؟ معاملہ صحت اور تعلیم تک ختم نہیں ہوتا بلکہ ٹرانسپورٹ اورسب سے بڑھ کر سیکیورٹی اور انصاف کے معاملات سب سے اہم ہیں افسوس کا مقام ہے کہ ایک عام شہری کو ایک ایف آئی آر درج کرانے کے لیے آج بھی پیسہ دینا پڑتا ہے اور پھر تفتیش کے مراحل سے گزرنے کے بعد ماتحت عدالتوں کے اندر دھکے کھا کھا کر جوتے ٹوٹ جاتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔ ایسی صورتحال کے اندر عام شہری یہی سوچتا ہے کہ آخر وہ ٹیکس کیوں ادا کرے ؟
اگر سرکار دیگر سہولیات فراہم نہیں کر پاتی تونا سہی کم ازکم حکومت کو فوری اور سستا انصاف عام شہریوں کو فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے اور اس انصاف کے حصول کے متمنی ہر طبقے کے لوگ ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے تعلیم اورصحت تو لوگ پرائیویٹ اداروں میں حاصل کر سکتے ہیں پر عدل وانصاف کے کورٹس اور پولیس اسٹیشنر وغیرہ پرائیویٹ طورپر میسر نہیں ہیں تو گویا ہر طبقے کا شخص ہمارے عدالتی نظام سے شدید متاثر ہو رہا ہے اور اس کے بلواسطہ منفی اثرات ہماری معیشت پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ اب اس معیشت اور ٹیکس کے حصول کے پیچھے ایک اور بھی سیاسی کشمکش جاری ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے پاس فنڈز کی کافی کمی آگئی کیونکہ بہت سارے پیسے صوبوں کو دیے گئے ۔ اب اس چیز کا بھی اندیشہ کیا جاتا ہے کہ وفاقی حکومت اٹھارویں ترمیم میں ردو بدل یا رول بیک کر کے اپنا حصہ بڑھانے کی کوشش کریگی جو کہ انتہائی نامناسب اقدام ثابت ہو گا۔
دراصل پاکستان کے آئین کی رو سے تمام اختیارات اور فنانسز اور فنڈز کو نچلی سطح پر منتقل کرنا لازمی ہے اور اختیارات صوبائی اورمزید لوکل باڈیز یا ضلع کونسل کے اور کارپوریشن کی سطح پر لے جایا جائے تو پھر وہاں پر ٹیکس حاصل کرنا کافی آسان ہو جاتا ہے بالخصوص اگر ضلع کونسل اور بلدیاتی اداروں کے پاس شہریوں کے تمام مسائل حل کرنے کے اختیارات آجائیں تو پھر یہی بلدیاتی ادارے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لے سکتے ہیں بشرطیکہ تمام ٹیکس کا زیادہ تر حصہ اسی علاقے کے اوپر خرچ کیا جائے ۔ افسوس کی بات ہے جب دور دراز علاقوں سے ٹیکس وصول کر کے وفاقی اور صوبائی ادارے لے جاتے ہیں پھر وہ عام عوام کے خون پسینے کی کمائی ان اداروں کی تجوریوں میں چلی جاتی ہے پھر وہاں سے سرکاری افسران اور حکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہو جاتی ہے۔
یہ نظام کچھ اس طرح سے کام کرتا ہے کہ فنڈز کہاں جا رہے، کہاں خرچ ہو رہے ہیں اس پر عام آدمی یا ٹیکس ادا کرنیوالا نگاہ رکھ ہی نہیں سکتا۔ تو اگر حکومت وقت کو ٹیکس بڑھانا ہے تو پھر انھیں پاکستانی آئین اور اٹھارویں ترمیم پر من وعن عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے ہونگے اور اس طرح کی پالیسی مرتب کرنی ہو گی کہ زیادہ تر ٹیکسز ضلع کونسل لیول پر موصول کیے جائیں اورپھر ان ٹیکسز کا زیادہ تر حصہ اسی علاقے یا اسی شہر یا تحصیل کے اندر خرچ ہو تاکہ عوام کو اپنے پیسے اپنے اوپر ہی خرچ ہوتے ہوئے دکھائی دیں تاکہ ان کا حکومت پر اعتماد بحال ہو۔ ساتھ ہی عوامی نمائندوں اور سرکاری افسران کی کارکردگی ان کی نگاہ کے سامنے کھل کر آجائے ۔ بہرحال جس طرح عوام اورحکمرانوں میں اس وقت دوریاں بہت بڑھ چکی ہیں ۔ ایسی صورتحال کے اندر لوگوں سے ٹیکس وصول کرنا حکومت کے لیے نہایت مشکل ہو گا۔
سید ذیشان حیدر
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments