آئی ایم ایف کے کردار میں تبدیلی کی خوش فہمی اپنی جگہ لیکن اس کے ماضی کی تاریخ بتاتی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل پیرا ہونے والے ممالک میں غربت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور متعدد ممالک میں ٹی بی سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل کے لیے بالائی اور اشرافیائی طبقے سے قربانیاں طلب کی جانی چاہئیں کیوں کہ غریب اور زیریں متوسط طبقے پر اس کا بوجھ ڈالنے کے نتائج نہایت تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ غربت، افلاس، بھوک، بے روزگاری اور طبقاتی ناہمواری بے چینی اور جرائم کو جنم دیتی ہے۔ ہمارے دشمن مگرمچھوں کی طرح اس صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
اگر ملک کا صاحب ثروت طبقہ بڑی لگژری گاڑیوں کے بجائے آئندہ چند سال تک چھوٹی گاڑیوں کا استعمال کرے، ملک میں سائیکلوں کا استعمال عام کیا جائے، شادی بیاہ، سالگرہ اور سال کے شروع و آخر کی تقریبات پر فضول خرچیوں سے پرہیز کرے، اراکین کابینہ، سینیٹ اراکین، قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان، وزرائے اعلیٰ، گورنر، فوج کے اعلیٰ افسران اپنے طرز زندگی میں سادگی لے آئیں، غیر ضروری غیر ملکی اشیا کا استعمال ترک کر دیا جائے، بیوروکریسی اور سیاستدانوں میں کرپشن کے خاتمے کے لیے شفاف اور واضح محسوس ہونے والے انصاف کا قیام ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ صورت حال میں بہتری آئے۔
بعض حلقوں کی جانب سے ان خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی صورت میں پاکستان کو اپنے نیوکلیئر پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے اخراجات کم کرنے ہوں گے اور یہی وہ شرط ہے جسے بین الاقوامی طاقتیں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ماضی میں نہیں منوا سکیں۔ لہٰذا پاکستان کو جان بوجھ کر اقتصادی تباہی کے دہانے پر دھکیلا گیا ہے تا کہ اس سے من مانی شرائط منوائی جا سکیں۔ مراعات یافتہ طبقہ اب تو بس کر دے کیوں کہ یہ آن بان، ٹھاٹ باٹ اس ملک کی وجہ سے ہے اس لیے قومی مفاد کو ہر چیز پر ترجیح دی جائے۔
بیوروکریسی میں قابل ذکر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس دوہری شہریت ہے ایسے لوگوں کی فہرست شائع کی جائے جن اراکین اسمبلی، وزرا، اعلیٰ فوجی افسران، عدلیہ کے ذمے داران کی بیرون ملک جائدادیں ہیں، حکومت کی ویب سائٹ پر ان کے نام جاری کیے جائیں تا کہ قوم کو حقائق کا علم ہو سکے اور محض حکومت مخالفین کو ٹارگٹ نہ کیا جائے اور گند کو ہر سطح پر صاف کیا جائے۔ حکومت مالیاتی اور تجارتی خسارے میں کمی، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کرے۔ ملک میں ایکسپورٹ کلچر کا نفاذ اور شعور پیدا کیا جائے۔ سندھ سے مالیاتی امور میں اختلافات ختم کیے جائیں بجلی اور گیس سے سبسڈی ختم کرنے سے غربت میں اضافہ ہو گا۔
غیر ضروری اشیا کی دس ارب ڈالر کی درآمد پر چند سال کے لیے پابندی عائد کر دی جائے، حکومت کے معاشی منتظمین لاکھ دلائل دیں، ساری ذمے داری گزشتہ حکومتوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی غیر سنجیدہ روش اختیار کریں، ملک کے باشعور طبقے میں آئی ایم ایف سے قرض لینا ناپسندیدہ ہی ٹھیرے گا لہٰذا دانشمندی کا تقاضا ہے کہ حکومت طویل مدتی اور قلیل مدتی ایسی پالیسیاں اپنائے جن سے حکومت کے لگژری اخراجات، تعیشات سے نجات حاصل ہو اور خود انحصاری اور خود کفالت کی راہ ہموار ہو۔ 2008ء میں کیمبرج اور ہیل یونیورسٹی میں ایک تحقیق شائع ہوئی جس کے مطابق آئی ایم ایف کے قرضوں کی سخت شرائط کی بدولت مشرقی یورپ میں ہزاروں افراد کی موت واقع ہوئی اور ٹی بی کے امراض میں اضافہ ہوا۔
اکیس ممالک جنہوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا وہاں ٹی بی میں 16.6 فی صد اضافہ ہوا۔ پاکستان صحت پر جی ڈی پی کے ایک فی صد سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بستر اور دوائیں نہیں۔ وزیراعظم اس صورت حال کا خود مشاہدہ کر چکے ہیں، اس لیے عوام حکومت سے بجا طور پر توقع کرتی ہے کہ وہ صحت، تعلیم اور ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی نہیں کرے گی، پی ٹی آئی کی حکومت پر عوام نے جس اعتماد کا اظہار کیا تھا اگر اس اعتماد کو مزید ٹھیس پہنچائی گئی تو ’’تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘ والا معاملہ ہو گا۔
ڈاکٹر سید محبوب
بشکریہ روزنامہ جسارت
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments