کراچی کے اسپتالوں میں جعلی ڈاکٹروں کی جہالت یا اصلی ڈاکٹروں کی مجرمانہ غفلت کے ہاتھوں معصوم بچوں کے جاں بحق ہونے کے واقعات جس تسلسل سے جاری ہیں اس سے واضح ہے کہ اس ہلاکت خیز سلسلے کی روک تھام کے لیے حکومت کی جانب سے اب تک کیے جانے والے اقدامات قطعی ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں۔ صرف اپریل کے مہینے میں غلط علاج کے نتیجے میں نو ماہ کی بچی نشوا کی ہلاکت سمیت اس نوعیت کے متعدد واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں جبکہ اتوار کو گلشن اقبال اور ملیر میں غلط انجکشن لگا دیئے جانے کی وجہ سے دو مزید بچے آٹھ سالہ صبا نور اور نو مولود حنین اپنے والدین اور اقارب کو عمر بھر کا دکھ دے کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔
صبا نور کو سانس کی تکلیف پر والدین قریبی کلینک لے کر گئے جہاں مبینہ طور پر ایک اتائی ڈاکٹر نے اسے انجکشن لگایا جس کے بعد بچی فوری انتقال کر گئی جبکہ ملیر میں تین ماہ کا محمد حنین بظاہر ہائی ڈوز دوا کے ری ایکشن کے نتیجے میں دم توڑ گیا۔ پولیس نے صبا نور کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرتے ہوئے واقعہ میں ملوث جعلی ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا ہے۔ دوسری جانب دارالصحت اسپتال میں غلط انجکشن لگنے سے جاں بحق ہونے والی بچی نشوا کے والد نے حکومت سندھ کی جانب سے جوڈیشل کمیشن بنانے کی یقین دہانی کے بعد دھرنا ختم کر دیا ہے۔ اتائی ڈاکٹروں کے کلینک اور غیر تربیت یافتہ عملے پر مشتمل اسپتال ملک بھر میں عام ہیں۔
اینٹی بایوٹک ادویہ کا بے محابا اور غیر ضروری استعمال کسی قاعدے ضابطے کے بغیر ملک بھر میں جاری ہے۔ اس ضمن میں اگر کچھ قوانین ہیں بھی تو ان پر عمل درآمد کی کسی کو پروا نہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور منتخب ایوانوں کا فرض ہے کہ فوری طور پر علاج گاہوں میں موت کی اس ارزانی کا نوٹس لیں، غیر مستند معالجوں اور غیر تربیت یافتہ عملے کے بجائے تمام طبی مراکز پر مستند معالجوں اور عملے کی موجودگی کو کم سے کم وقت میں یقینی بنانے کا اہتمام کریں اور غیرضروری طور پر سخت ردعمل والی دواؤں کے استعمال پر پابندی عائد کریں تاکہ ہمارے شفاخانے موت کے نہیں زندگی کے نقیب ثابت ہوں۔
اداریہ روزنامہ جنگ
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments