Pakistan

6/recent/ticker-posts

یکم مئی : ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

یکم مئی، جو دنیا کے بہت سے ملکوں میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، وطن عزیز میں اس انداز سے وارد ہوا کہ جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کی شدید ضرورت نے علامہ اقبال کے فلسفہ خودی اور ایسی ہی دوسری باتوں کو جانے کہاں چھپا دیا۔ ملک بھر میں مختلف مقامات پر عوامی چندوں سے دستر خوان لگانے والی فلاحی تنظیموں کی صورت میں یہ حکمت ِخداوندی نظر آئی کہ سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے کئی کئی ماہ کی تنخواہوں سے محروم سفید پوش کہلانے والے افراد بھی منہ چھپا کر خوانِ نعمت پر بیٹھ گئے۔ اب، جبکہ ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے اور یوٹیلیٹی اسٹورز پر اشیائے خور و نوش کم نرخوں پر دینے کے اعلانات بھی سامنے آ چکے ہیں، ایسے انتظامات یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ماضی کی طرح سستے آٹے کے حصول کے لئے گھنٹوں قطاروں میں کھڑے ہوئے لوگوں کے جان سے گزر جانے کے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ 

پاکستانی عوام بہت سے یوم مئی، بہت سے رمضان اور بہت سے دیگر مواقع پر اعلانات و سہولتوں کے تجربات سے گزر چکے ہیں مگر مشکلات کا سلسلہ بڑھتا رہا۔ مائیں اپنے بچوں کو برائے فروخت کے لیبل کے ساتھ سڑکوں پر لاتی رہیں۔ بعض دیہاتوں کی پوری پوری آبادی اپنی ناگزیر ضروریات کے لئے گردے فروخت کرنے پر مجبور نظر آئی۔ مگر لوگوں کے حالات میں بہتری تو کیا آتی، سرکاری اسکولوں کو تباہ حال کر کے تعلیم کے نام پر ایسے اداروں کی سرپرستی کا سلسلہ چل پڑا جن کی بڑی تعداد پر تبصرے کے لئے کوئی نرم لفظ ملتا ہی نہیں۔ اس برس بھی یومِ مئی کی تقریبات ملک بھر میں اس انداز سے منائی گئیں کہ کہیں یونینیں بحال کرنے سمیت بعض مطالبات کی گونج ہوئی تو کہیں پروقار شخصیات کے امید افزاء اعلانات کا انتظار۔ تاہم موجودہ وفاقی حکومت کے اقدامات انتہائی مشکل حالات کے باوجود تجزیہ کاروں کو ایک خاص رخ کی طرف نظر آتے ہیں۔ 

شیلٹر ہومز کے قیام، ای او بی آئی پنشن میں اضافے، قومی بچت کی بہبود اسکیم کی شرح بڑھنے، صحت کارڈ کی اسکیموں کے اجراء کے بعد مزدوروں کے اوقاتِ کار اور حالاتِ کار کے بارے میں توقعات بندھی ہیں۔ کوئلے کی کانوں کے حادثوں، بلدیہ ٹائون کی آتشزدگی اور گڈانی شپ بریکنگ کے سانحہ جیسی صورتحال کے اعادہ سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر کی امید کی جا رہی ہے۔ مگر اس عام تاثر یا سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ محنت کشوں کا استحصال کرنے والا محدود طبقہ اچھے سے اچھے نظام کے چیمپئن کا روپ دھارنے کے باوجود کیا ان طریقوں سے ازخود اجتناب پر آمادہ ہو سکتا ہے جن میں عوامی ہمدردی کا پہلو غریبوں کی سانس کی آمدوشد برقرار رکھنے تک محدود ہے تاکہ ملکی وسائل پر اپنی گرفت مضبوط رکھ سکے۔ ایسے نظام کے تعین کا برسوں سے پیش کیا جانے والا تصور تاحال ایک خواب ہے جس میں مخصوص آمدنیوں کے حامل افراد اپنی ہی جیسی آمدنیوں کے حامل دوسروں افراد کو اپنا نمائندہ بنا کر مختلف پالیسی ساز ایوانوں میں بھیج سکیں۔ 

حبیب جالب کی طرح خود کو عوام کیلئے وقف کرنے والے اور مرزا ابراہیم کی طرح مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے پوری زندگی گزارنے والے مقبول افراد دولت کے ہاتھوں انتخابات میں شکست سے دوچار ہوتے رہیں گے۔ 133 برس قبل 7 مزدوروں کی پھانسی سے شروع ہونے والی تحریک 8 گھنٹے کے اوقاتِ کار کے تعین کا سبب بنی تھی۔ بعض یورپی ملکوں کے اوقات کار چھ گھنٹوں تک آنے کے باوجود ان کے پیداواریت و برآمد بڑھانے اور معاشی حالات میں بہتری کا ذریعہ بن رہی ہے۔ مگر وطنِ عزیز کے متعدد ادارے آئی ایل او کے اوقاتِ کار اور ماحولِ کار جیسے قواعد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ لیبر یونین آجر اور مزدور کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے جسے بحال کر کے محنت کشوں کی پیداواری صلاحیت، آجروں کی آمدنی، مزدوروں کے حالاتِ زندگی اور ملکی معیشت میں بہتری لانے کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے جبکہ یہی نہیں معاشی سرگرمیاں تیز کرنے اور خوشحالی کے راستے پر پیش رفت کیلئے سی پیک اور سیاحت سمیت ہر ذریعے سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اداریہ روزنامہ جنگ

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments