پاکستان اور بھارت کے درمیان تناؤ کے بعد کالعدم عسکری تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر ایک مرتبہ پھر خبروں میں نمایاں ہیں۔ بھارت کی خواہش ہے کہ مسعود اظہر کو اقوامِ متحدہ کی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا جائے۔ لیکن چین نے ماضی کی طرح اس بار بھی اقوامِ متحدہ میں اس ضمن میں پیش کی جانے والی قرارداد کو تیکنیکی بنیادوں پر التوا میں ڈال دیا ہے۔ سلامتی کونسل کے تین مستقل ارکان - امریکہ، برطانیہ اور فرانس - مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کے حق میں ہیں۔
لیکن چین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ تفصیلی بات چیت کا متقاضی ہے اور وہ اس معاملے پر پاکستان اور بھارت دونوں سے رابطے میں ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ عالمی فورمز پر فیصلے ذاتی پسند یا نا پسند کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہئیں ۔ لیکن آخر مسعود اظہر کون ہیں اور بھارت کیوں انھیں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرانا چاہتا ہے؟ وائس آف امریکہ نے انہی سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مولانا مسعود اظہر کون ہیں؟
مولانا مسعود اظہر کالعدم شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے بانی اور سربراہ ہیں۔
مسعود اظہر بھی اپنے بیشتر ساتھیوں کی طرح افغانستان پر روس کے حملے اور اس کے خلاف افغان مجاہدین کی جدوجہد کے دنوں میں سرگرم ہوئے اور پھر افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد انھوں نے لشکرِ طیبہ کے بانی حافظ سعید کی طرح اپنے "جہاد" کا رخ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی جانب موڑ دیا۔
مسعود اظہر جولائی 1968ء میں بہاولپور میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کے والد سرکاری اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور دیو بند مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔
مسعود اظہر کو مذہبی تعلیم دلانے کے لیے بہاولپور سے کراچی بھیجا گیا جہاں وہ بنوری ٹاؤن مسجد سے منسلک 'جامعہ العلوم اسلامیہ' میں زیرِ تعلیم رہے۔ اسی درس گاہ میں اُن کی ملاقات حرکت المجاہدین کے امیر فضل الرحمان خلیل سے ہوئی۔ عمر سعید شیخ بھی اُن کے قریبی دوست تھے جن کا نام بعد ازاں امریکی صحافی ڈینیل پرل کے قتل کے سلسلے میں منظرِ عام پر آیا۔ اطلاعات کے مطابق مسعود اظہر نے افغانستان میں عسکری تربیت لی اور وہاں جاری روس کے خلاف لڑائی میں بھی حصہ لیا۔ لیکن افغانستان سے روسی افواج کے انخلا کے بعد مسعود اظہر بھارت کے زیرِ انتظام کشیمر چلے گئے اور وہاں انھوں پاکستان سے آنے والے عسکریت پسندوں کی مدد کی۔
یہ وہ وقت تھا جب کشمیر کا محاذ خاصا گرم تھا۔ سنہ 1994 میں کشمیر کے علاقے اننت ناگ میں ایک چھاپے کے دوارن بھارت کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسعود اظہر کو حراست میں لے لیا۔ اس کے ساتھ ہی اُن کے ساتھیوں نے انھیں چھڑانے کے لیے منصوبہ بندی شروع کی۔ مسعود اظہر کے ساتھیوں نے پہلے سری نگر میں ایک یورپی سیاح کو اغوا کیا اور اس کی رہائی کے عوض مسعود اظہر کو رہا کرنے کی شرط رکھی۔ مسعود اظہر کی حراست کے 10 ماہ بعد بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں کچھ سیاحوں کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا اور مغوی سیاحوں کی رہائی کے بدلے ایک بار ہھر مسعود اظہر کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان دونوں کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد آخرِ کار مسعود اظہر کو ان کے ساتھی ڈرامائی انداز میں رہا کرانے میں کامیاب ہو گئے۔
مسعود اظہر اور جیشِ محمد
دسمبر 1999ء میں مسعود اظہر کے ساتھی ایک بھارتی مسافر طیارے کو اغوا کر کے افغانستان کے شہر قندھار لے گئے اور کئی دن کی بات چیت کے بعد جہاز اور اس میں سوار مسافروں کے بدلے مسعود اظہر کو رہا کرانے میں کامیاب ہو گئے۔اُس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان کے ساتھ بہتر تعلقات ہونے کے سبب چند دن قندھار میں قیام کرنے کے بعد مسعود اظہر پاکستان آ گئے۔ یہیں ان کے دیرینہ دوست فضل الرحمان خلیل اور اُن کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور انھوں نے اپنی نئی جماعت جیشِ محمد بنانے کا اعلان کیا۔ قیام کی ابتدا میں اُن کی جماعت کی سرگرمیاں زیادہ تر افغانستان میں تھیں۔ لیکن 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد امریکہ نے جب افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ شروع کی تو مسعود اظہر بہاولپور منتقل ہو گئے۔ اپنے آبائی شہر بہاولپور کو انھوں نے اپنی تنظیم جیشِ محمد کا مرکز بھی بنایا لیکن ساتھ ہی تنظیمی دفاتر ملک کے مختلف شہروں میں بھی قائم کیے۔
سارہ حسن
بشکریہ وائس آف امریکہ
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.
0 Comments