Pakistan

6/recent/ticker-posts

طالبان امریکہ مذاکرات

امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحا میں چھ روز سے جاری مذاکرات کے بعد امن معاہدے کے مجوزہ مسودے پر اتفاق نے افغانستان پر 17 برس پہلے مسلط کی جانے والی ایک ایسی جنگ کے خاتمے کے امکانات روشن کر دئیے ہیں جس کا کوئی قابلِ فہم جواز کبھی پیش نہیں کیا جا سکا۔ دوحا مذاکرات میں امریکی وفد کی قیادت زلمے خلیل زاد اور طالبان کے وفد کی سربراہی ملا عمر مرحوم کے قریبی ساتھی ملا عبدالغنی برادر نے کی۔ مذاکرات کی جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں ان کے مطابق امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے تحت تمام غیر ملکی افواج اٹھارہ ماہ میں افغانستان سے چلی جائیں گی، قیدیوں کا تبادلہ ہو گا جبکہ طالبان رہنمائوں کو بلیک لسٹ سے نکال کر ان پر عائد سفری پابندیاں ختم کر دی جائیں گی اور عبوری حکومت کے قیام کیلئے مذاکرات ہوں گے۔

معاہدے کے تحت فوجی انخلا کے عوض طالبان نے امریکہ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ داعش یا القاعدہ سمیت کسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کو مستقبل میں امریکہ یا کسی دوسرے ملک کے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ طالبان ذرائع کے مطابق غیر ملکی فوجی انخلا، طالبان قیادت پر پابندیوں کے خاتمے اور قیدیوں کے تبادلے کے بعد افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کیلئے مذاکرات کئے جائیں گے۔ یہ عبوری حکومت تین سال کیلئے ہو گی؛ تاہم طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بات چیت میں پیشرفت کی توثیق کے باوجود جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر طالبان کی آمادگی کی تردید کرتے ہوئے جامع مذاکرات کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ 

امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کا کہنا بھی یہی ہے کہ اہم معاملات پر خاطر خواہ پیشرفت کے باوجود تمام امور پر اتفاق تک کچھ حتمی نہیں ہو گا۔ زلمے خلیل زاد اب مذاکرات کے حوالے سے کابل میں افغان حکومت سے مشاورت کریں گے۔ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر متوقع صورتحال پیدا نہ ہوئی تو فریقین افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلا پر اتفاق کا باضابطہ اعلان پیر کے روز تک کر دیں گے۔ یہ بلاشبہ ایک بہت بڑی اور نہایت خوش آئند پیشرفت ہے لیکن معاملات جس قدر حساس نوعیت کے ہیں ان کے پیش نظر کوئی حتمی بات کہنا فی الواقع کسی کیلئے بھی ممکن نہیں۔ صورتحال کی نزاکت کی بنا پر تمام فریقوں کو افہام و تفہیم کے اس ماحول کو کسی بھی دھچکے سے محفوظ رکھنے کو یقینی بنانا ہو گا۔ 

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ ایک عرصے سے افغانستان میں امن کیلئے طاقت کے بجائے پُرامن مذاکرات کا علمبردار ہے۔ اس کی کوششوں سے طالبان کئی بار مذاکرات پر آمادہ بھی ہوئے لیکن خود امریکی پالیسی میں دوام و استحکام نہ ہونے کی وجہ سے یہ کاوشیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی اپنے دور کا آغاز افغانستان میں جارحانہ حکمتِ عملی سے کیا تھا، تاہم اب پہلی بار امریکی انتظامیہ بظاہر پوری یکسوئی کے ساتھ طالبان سے دہشت گرد تنظیم کے بجائے ایک سیاسی طاقت کی حیثیت سے بات چیت کر رہی ہے۔ امریکی سینیٹر لنزے گراہم نے برملا تسلیم کیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم عمران خان اور ان کے ہم خیال طالبان سے جنگ کے بجائے مصالحت کی جس حکمتِ عملی کے حامی تھے‘ وہی درست تھی.

تاہم اس سمت میں فیصلہ کُن پیشرفت کیلئے ضروری تھا کہ امریکی قیادت بھی پورے شرح صدر کے ساتھ مذاکرات کے راستے کو اپنانے پر تیار ہوتی۔ اور اب جب بظاہر ایسا ہو گیا تو طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا پاکستان کیلئے بھی ممکن ہو سکا۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اسی تناظر میں وضاحت کی ہے کہ ’’ہم نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لا کر اپنی ذمہ داری پوری کر دی لیکن امریکہ کو جنگ ختم کرنے میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کر کے جانا ہو گا‘‘۔ بلاشبہ امریکہ کی جانب سے مسئلے کے حل میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرنا افغانستان میں دائمی اور پائیدار امن کیلئے قطعی ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر برادر ملک کے امن و استحکام میں پاکستان کیلئے کوئی مؤثر کردار ادا کرنا مشکل ہو گا اور افغانستان میں کشیدگی کی نئی شکلیں رونما ہونے کے خطرات بڑھ جائیں گے۔

اداریہ روزنامہ جنگ
 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments