Pakistan

6/recent/ticker-posts

بنگلہ دیش : اپوزیشن نے انتخابی نتائج مسترد کر دیے

بنگلہ دیش میں گیارہویں عام انتخابات میں پولنگ کے دوران مختلف پر تشدد واقعات میں 17 افراد ہلاک ہوئے اور پولنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی اپوزیشن نے انتخابات کے نتائج مسترد کرتے ہوئے انہیں کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کر دیا۔
انتخابات میں پولنگ کے دوران اپوزیشن کے حامیوں کو دھمکیوں اور حکمراں جماعت عوامی لیگ پارٹی کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کی شکایات بھی موصول ہوئیں۔ امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بنگلہ دیش میں ہونے والے انتخابات کو موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی طاقت ور حکمرانی کی وجہ سے ایک ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے جس میں تیسری مدت کے لیے شیخ حسینہ واجد کے منتخب ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

خیال رہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ اور اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیا کو بدعنوانی کے الزامات میں قید کی سزا کے بعد نااہل قرار دیا گیا تھا ۔ دوسری جانب خالدہ ضیا کی غیر موجودگی میں اپوزیشن جماعتوں نے 82 سالہ کمال حسین کی سربراہی میں اتحاد تشکیل دیا ہے، کمال حسین نے آکسفورڈ سے وکالت کی تعلیم حاصل کی اور وہ شیخ حسینہ کی جماعت عوامی لیگ کے سابق رکن بھی ہیں۔ اس مرتبہ بنگلہ دیش کے انتخابات میں 10 کروڑ 40 لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل ہیں جن میں سے اکثر نوجوانوں نے پہلی مرتبہ حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ مقامی و غیر ملکی میڈیا کے مطابق ووٹنگ شروع ہونے کے بعد سے ووٹنگ ختم ہونے تک ملک کے 6 اضلاع میں اپوزیشن اور حکمراں جماعتوں کے درمیان تصادم میں 17 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پولیس نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

اے پی کو بنگلہ دیش سے 50 سے زائد افراد کی فون کالز موصول ہوئیں جنہوں نے اپنا تعارف اپوزیشن جماعت کے حامیوں کے طور پر کروایا، انہوں نے پولنگ بوتھ میں حکمراں جماعت کی جانب سے دھمکیاں موصول ہونے اور عوامی لیگ کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کی شکایات کیں۔ بنگلہ دیش کے چیف الیکشن کمشنر کے ایم نور الہدیٰ نے بتایا کہ ’ کچھ حادثات پیش آئے ہیں، ہم نے حکام سے معاملات حل کرنے کا کہا ہے ‘۔ یوریشیا گروپ کے جنوبی ایشیائی تجزیہ کار ساشا رائزر کے مطابق ’ اپوزیشن کو شکست دینے کے لیے حسینہ واجد کی جانب سے ریاستی مشینری کا استعمال ان کی انتخابی کامیابی کو یقینی بناتا ہے‘۔ حسینہ واجد نے اپنی بیٹی اور بہن کے ہمراہ ڈھاکا میں ووٹ کاسٹ کیا، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ’ ووٹرز ہمیں ایک اور موقع دیں گے تاکہ ہم ترقی کو بڑھائیں اور بطور ترقی پذیر ممالک بنگلہ دیش کو مزید آگے بڑھائیں‘۔

دوسری جانب کمال حسین نے بھی ڈھاکا میں ووٹ کاسٹ کیا، ان کا کہنا تھا کہ انہیں مختلف حصوں سے دھمکیوں اور ووٹ ٹیمپرنگ سے متعلق شکایات موصول ہورہی ہیں‘۔ بنگلہ دیش بھر میں قائم 40 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن 4 بجے بند ہو گئے جس کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ بنگلہ دیش میں گیارہویں عام انتخابات کے موقع پر 6 لاکھ سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے جن میں فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے اہلکار بھی شامل تھے۔

پولنگ کے دوران ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے بنگلہ دیش میں موبائل اور انٹرنیٹ سروسز بھی معطل رہیں۔ عام انتخابات کے دوران بنگلہ دیش کے بڑے نیوز چینل کی نشریات کو بند اور 7 صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اے ایف پی کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب بنگلہ دیش کے بڑے نیوز چینل کو بند کر دیا گیا۔ حکام نے اتوار کو تصدیق کی کہ نجی ٹی وی چینل جمونا کی نشریات ملک بھر میں معطل کر دی گئی ہیں۔ چینل کے چیف نیوز ایڈیٹر فہیم احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ کیبل آپریٹرز نے ہمارے چینل کو بغیر کسی وضاحت کے بند کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم اب بھی اپنی نشریات چلارہے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں کوئی بھی ہمارا چینل نہیں دیکھ سکتا، تاہم ہماری نشریات کو آن لائن دیکھا جا سکتا ہے۔

اپوزیشن کا انتخابات کالعدم قرار دینے کا مطالبہ
بنگلہ دیش اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کمال حسین نے ملک میں جاری عام انتخابات کو ’ مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے نتائج کو مسترد کیا جائے گا۔ پولنگ کے اختتام کے چند گھنٹوں بعد میڈیا بریفنگ میں کمال حسین نے کہا کہ ’ اپوزیشن الیکشن کمیشن سے انتخاب کو کالعدم قرار دینے اور ایک غیر جانبدار حکومت کی زیر نگرانی نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کرتی ہے‘۔
کمال حسین نے کہا کہ اپوزیشن کے تقریباً ایک سو امیدوار آج ملک میں جاری انتخابات سے دستبردار ہو گئے تھے۔

خیال رہے کہ چند روز قبل بنگلہ دیش کی اپوزیشن جماعتوں کی نے انتخابات کے پیشِ نظر پولیس نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ساڑھے 10 ہزار سے زائد کارکنان کو حراست میں لیے جانے کا الزام عائد کیا تھا۔ علاوہ ازیں انتخابی مہم میں مختلف تصادم میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک بھی ہوئے جبکہ انتخابات سے چند روز قبل نواب گنج میں صحافیوں پر بھی نامعلوم افراد نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں 10 صحافی زخمی ہو گئے تھے۔ خیال رہے کہ حسینہ واجد نے انتخابی مہم کے دوران ملکی معاملات چلانے کے لیے نگراں حکومت کی اجازت دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

حکمراں جماعت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے 2014 کی تاریخ دہرانے سے اجتناب کیا جا رہا ہے جب خالدہ ضیا اور ان کی جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور ووٹر ٹرن آؤٹ 22 فیصد رہا تھا۔ مزید برآں پارلیمنٹ کی 3 سو نشستوں میں سے نصف سے زائد پر مقابلہ نہیں ہوا تھا جبکہ عوامی لیگ کی فتح پر ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ 1990 سے لے کر اب تک بنگلہ دیش میں حسینہ واجد یا خالدہ ضیا نے اپنی حکومتیں قائم کی ہیں اور یہ دونوں طاقتور خواتین ایک وقت میں قریبی اتحادی رہنے کے بعد اب ایک دوسرے کی خطرناک سیاسی دشمن بن چکی ہیں۔
 

Visit Dar-us-Salam Publications
For Authentic Islamic books, Quran, Hadith, audio/mp3 CDs, DVDs, software, educational toys, clothes, gifts & more... all at low prices and great service.

Post a Comment

0 Comments